پاکستان کو پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر تشویش ہے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا نیوز ویک کو انٹرویو

143
Munir Akram
Munir Akram

نیویارک۔17جنوری (اے پی پی): پاکستان نے پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی معاشی صورتحال بہتر ہونے تک عسکریت پسند گروہوں داعش اور آئی ایس آئی ایل کے حملوں میں مارے جانے والے طالبان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے امریکی میگزین نیوز ویک کو انٹرویو میں خصوصی طور پر تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے)، علاقائی داعش خراسان شاخ، جسے آئی ایس آئی ایس کے یا آئی ایس آئی ایل کا ذکر کیا جنہوں نے پاکستانی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات یہ گروہ مل کر بھی پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں۔

ہمیں اس سےنمٹنا ہو گا اور ہم داخلی طور پر اس کے خلاف پرعزم ہیں جیسا کہ ہم ماضی میں اس کے خلاف مقابلہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش میں کہ ان تمام گروپوں کا مقابلہ کرنا اس کے فوری مفاد میں ،نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں ۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان کو پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر تشویش ہے۔ افغانستان میں اس وقت ایسی صورتحال ہے جہاں افغان حکومت داعش خراسان کا مقابلہ کر رہی ہے ہمیں افغان حکومت کو دیگر تمام دہشت گرد تحریکوں سے نمٹنے کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ہم صورتحال کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں اس کے خلاف ایک موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سمیت دیگر گروہوں جیسے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) جو ایغور نسل کے عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے اور ازبک نسل کے عسکریت پسندوں پر مشتمل اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کا بھی مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس طرح کی کوششیں اس وقت تک کارآمد ثابت نہیں ہوں گی جب تک افغانستان کی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہو جاتی۔

پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ باہر سےمالی معاونت ملنے کی وجہ سے داعش کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیں ۔اگر افغانستان کی معاشی صورتحال بہتر نہ ہوئی اور طالبان کو مالی وسائل دستیاب نہ ہو سکے تو ان کے بعض دھڑے عسکریت پسند گروہوں داعش اور آئی ایس آئی ایل کا نشانہ بن سکتے ہیں جو ایک بہت پریشان کن صورتحال ہو گی۔