اسلام آباد۔16جون (اے پی پی):پاکستان نے ویژن 2047 کے تحت بلیو اکانومی ایجنڈے سے 100 ارب ڈالر حاصل کرنے کا بلند ہدف مقرر کیا ہے۔ یہ ہدف سمندری وسائل کے پائیدار استعمال، بندرگاہوں کی ترقی، ماہی گیری، شپ ری سائیکلنگ، قابلِ تجدید توانائی، اور ساحلی سیاحت جیسے شعبوں کو فروغ دے کر حاصل کیا جائے گا۔یہ اقدام اُڑان پاکستان وژن اور اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) سے ہم آہنگ ہے، اور اس کا مقصد پاکستان کی معیشت میں سمندری شعبے کا حصہ نمایاں طور پر بڑھانا ہے۔
پلاننگ کمیشن اعداد وشمار کے مطابق پاکستان نے اپنی 1,046 کلومیٹر طویل بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی اور 2,90,000 مربع کلومیٹر پر محیط خصوصی اقتصادی زون کو بروئے کار لا کر بلیو اکانومی ایجنڈے کو مزید تقویت دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اہم سمندری شعبوں میں پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ بنیادی شعبوں میں میری ٹائم ٹرانسپورٹ، ماہی گیری، شپ ری سائیکلنگ، ساحلی سیاحت، اور ابھرتے ہوئے شعبے جیسے قابلِ تجدید توانائی اور سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔پاکستان کا عالمی تجارتی راستوں پر تزویراتی محلِ وقوع تین بڑے بندرگاہی مراکز کراچی پورٹ، پورٹ قاسم، اور گوادر پورٹ کی اہمیت کو دوچند کرتا ہے، جنہیں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت مزید مربوط کیا جا رہا ہے۔
مالی سال 2024-25 میں کراچی پورٹ نے 40.38 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی )، پورٹ قاسم نے 33.77 ملین میٹرک ٹن ، اور گوادر پورٹ نے 42,505.5 ملین میٹرک ٹن مال برداری سنبھالی۔ اسی دوران، ماہی گیری کی برآمدات 318.9 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ شپ ری سائیکلنگ سے 221.1 ملین ڈالرکی آمدنی ہوئی۔عالمی سطح پر بلو اکانومی کی مالیت اس وقت تقریباً 1.5 ٹریلین امریکی ڈالر ہے، اور 2030 تک اس کے دوگنا ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
پاکستان نے 2047 تک اس شعبے سے 100 بلین ڈالر حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو "اُڑان پاکستان” وژن اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) سے ہم آہنگ ہے۔مالی سال 2025-26 کے لیے اہم منصوبوں میں بندرگاہ انفراسٹرکچر کی جدیدکاری، گوادر میں بلو اکانومی سینٹر کی فعالیت، اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی ) کے بیڑے کی توسیع شامل ہے۔
سالانہ اہداف میں 3.5 ملین ٹی ای یوز (ٹی ای یوز) کنٹینر تھروپٹ اور ماہی گیری کی برآمدات کو 400 ملین ڈالر تک لے جانا شامل ہیں۔اگرچہ موسمیاتی تبدیلی اور سیکیورٹی چیلنجز موجود ہیں، حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مؤثر ہم آہنگی اور نجی شعبے کی شمولیت ہی بلو اکانومی کے تسلسل کے ساتھ فروغ میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔