
اسلام آباد۔22جولائی (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں پاکستان کے جید اور نمائندہ علما کرام نے محرم الحرام کے لئے ضابطہ اخلاق 2023کی توثیق کی ہے اور اس کے نفاذ پر زور دیا ہے، تمام شہری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں اسلامی نظریاتی کونسل میں ملک کے جید اور نمائندہ علما کرام کے اجتماع کی صدارت کے بعد پریس بریفنگ کے دوران کیا۔
اس علما ءاجتماع میں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، علامہ حافظ طاہر محمود اشرفی، قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالخبیر آزاد، مولانا حامد الحق حقانی، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا طیب قریشی، مفتی نعمان نعیم، مولانا صلاح الدین ایوبی، علامہ عارف واحدی، علامہ افتخار حسین نقوی، شیخ انور علی نجفی، علامہ شبیر حسین میثمی، علامہ حمید حسین امامی، علامہ ناصر عباس شیرازی، علامہ محمد حسین اکبر، علامہ محمد اقبال بہشتی، پیر نقیب الرحمان، پیر سید علی رضا بخاری، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پیر امین قادری، مولانا امتیاز احمد صدیقی، علامہ ڈاکٹر میر آصف اکبر، مولانا عادل عطاری، علامہ ضیا اللہ شاہ بخاری، سینٹر حافظ عبدالکریم، علامہ ابتسام الہی ظہیر، مولانا خلیل الرحمن، مولانا فہیم تھانوی اور مولانا علی محمد ابو تراب نے شرکت کی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے زیرِ سرپرستی 2020 کے اجلاس میں تمام مسالک کے جید اور نمائندہ علما و مشائخ کے منطور کردہ محرم الحرام کے لئے ضابطہ اخلاق 2023کی توثیق کی اور اس کے نفاذ پر زور دیا۔
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اس ضابط اخلاق کے مطابق تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں جیسا کہ دستور پاکستان میں مندرج ہیں، بشمول قانون کی نظر میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی۔ دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں، اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق کے مطابق علماء، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طورپر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے میں سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبرا ًاپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔ کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئی شخص خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، جملہ انبیا کرام، امہات المومنین، اہلِ بیت اطہار، خلفا راشدین اور صحابہ کرام کی توہین نہیں کرے گا۔ کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہینِ رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے ضابطہ اخلاق پر گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا۔
البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے(مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہوگی جو دستور پاکستان میں ہے)۔ کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔ سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔ بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں، خنثی اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔
پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے، کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔ کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پرمبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔ آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔