اسلام آباد۔28مارچ (اے پی پی):توانائی سے متعلق ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاور سیکٹر کو ایک جامع انرجی پلان کی ضرورت ہے جو قلیل مدتی حل سے آگے بڑھ کر آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کے معاہدوں پر منظم، شفاف اور جامع نظرثانی کرے،نیز آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ٹیرف کے ڈھانچے کا مکمل جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ بجلی کی قیمتوں کو معقول اور دستیاب بنایا جا سکے، اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کے ساتھ متوازن کیا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے جمعہ کو یہاں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس)اسلام آباد کے زیر اہتمام ‘آئی پی پی معاہدوں میں اصلاحات: ٹیرف اور سرکلر قرضے میں کمی’ کے موضوع پر منعقدہ ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب کی صدارت سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے کی جبکہ دیگر مقررین میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، نیپرا کے ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ امتیاز حسین بلوچ، ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو احد نذیر، ایف پی سی سی آئی کی ایس ڈی جی کمیٹی کے ممبر ابو بکر اسماعیل، سسٹین ایبیلیٹی ایکسپرٹ اسد محمود اور پبلک پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹر اطہر منصور شامل تھے۔ احد نذیر نے بجلی کی دستیابی اور اس کی قیمتوں کے تضاد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بجلی کی دستیابی کو یقینی بنانے کی کوششوں نے ٹیرف میں اضافہ کر دیا ہے جس سے برآمدات غیر مسابقتی ہو گئی ہیں، سرکلر قرضہ 2.7 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جو زیادہ تر صلاحیتی ادائیگیوں اور ڈالر انڈیکسیشن کی وجہ سے ہے نہ کہ صرف معاہدے کے ڈھانچے کی وجہ سے۔
انہوں نے کہا کہ وسیع پیمانے پر معاہدوں کی نظرثانی شفاف اور پیش گوئی کرنے کے قابل ہونی چاہئے تاکہ سرمایہ کاری کو مایوس ہونے سے بچایا جا سکے۔ امتیاز بلوچ نے زور دیا کہ ٹیرف کے نمونوں کا خاص طور پر تقسیم کے شعبے پر تفصیل سے جائزہ لیا جانا چاہئے، تقسیم کی کمپنیوں کو انفراسٹرکچر، حکومتی انتظام اور ٹیکنالوجی میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے اور نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ایندھن کے ذرائع کو ترجیح دی جانی چاہئے تاکہ مہنگی درآمدات پر انحصار کم ہو سکے اور توانائی کی سکیورٹی اور لاگت کی مؤثریت میں اضافہ ہو سکے۔
ابوبکر اسماعیل نے ٹیرف ڈھانچے اور منافع کے مارجن کا تکنیکی جائزہ لینے پر زور دیا تاکہ منصفانہ قیمتیں اور صنعت کی مسابقت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے توانائی کی قیمت پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو پر اثرانداز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر میں لچک پیدا کرنے کے لئے ایک منظم تقسیم شدہ وسائل کی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے۔
اسد محمود نے کہا کہ ایک اہم مسئلہ کیپیسٹی ٹریپ کا ہے جہاں صلاحیت کی ادائیگیاں 2016 میں 3 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 2025 میں 18 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہیں۔ ا نہوں نے خبردار کیا کہ مسابقت کو توانائی کے ماڈل کی رہنمائی کرنی چاہئے تاکہ کسی بیرونی دباوً میں آئے بغیر گورننس اور منصوبہ بندی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اطہر منصور نے کہا کہ ایک شفاف اور جامع نقطہ نظر ضروری ہے تاکہ ماضی کی سرمایہ کاری کو محفوظ رکھا جا سکے اور اصلاحات کو نافذ کیا جا سکے۔
مرزا حامد نے اس بات پر زور دیا کہ انفرادی ریلیف اقدامات کی بجائے اصلاحات کو جامع ہونا چاہئے، پالیسی میں تسلسل، تقسیم کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار پاور ماڈل کے ساتھ ایندھن کے متنوع مکس اور مقامی توانائی کے ذرائع پر زیادہ انحصار کرنا چاہئے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ آئی پی پی معاہدوں کی نظرثانی کے لئے عمومی اقدامات کے بجائے ایک واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
ہر معاہدے کا اس کے فوائد کے مطابق جائزہ لیا جانا چاہئے تاکہ سرمایہ کاروں اور صارفین کے لئے انصاف کو یقنی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کو وقت کا پابند بنایا جانا چاہئے اور کسی غیر یقینی صورتحال کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی بجائے ایک واضح روڈ میپ کے ساتھ اختتام پذیر ہونا چاہئے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=577035