پاکستان 42 ملین ٹن دودھ کے ساتھ دنیا کا چوتھا بڑاملک ہے،شاکر عمر

108

فیصل آباد ۔ 18 فروری (اے پی پی):پاکستان ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر عمر نے بتایا کہ پاکستان میں 100 ملین جانورموجود ہیں اور یہ42 ملین ٹن دودھ کے ساتھ دنیا کا چوتھا بڑاملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم بڑی مقدار میں بیرون ممالک سے خشک دودھ درآمد کررہے ہیں جس کی بڑی وجہ ہمارے فی جانوردودھ کی5 سے 6 لیٹر پیداوار ہے جبکہ دنیا اسوقت اوسطاً40 لیٹر روزانہ دودھ لے رہی ہے لہٰذاہمیں فوری طور پر دودھ کی پیداوار میں اضافہ کےلئے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ جہاں ہماری ملکی دودھ کی ضروریات پوری ہوسکیں، وہیں دودھ کی امپورٹ پر خرچ ہونےوالا زر مبادلہ بھی بچایا جاسکے۔

اے پی پی سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک اور لائیو سٹاک زراعت کا سب سے اہم جزوہے لیکن آج تک اس کی اہمیت کو سمجھاہی نہیں گیاجس کی وجہ سے دودھ اور گوشت کی قیمت صارف کی قوت خرید سے باہر چلی گئی حالانکہ کوروناکے دور میں بھی پاکستان کے جی ڈی پی میں 3 فیصد گروتھ کے ساتھ لائیو سٹاک کااہم کردارتھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فی کس جانور کی پیداوار انتہائی کم ہونا یقینی طور پرہماری لوکل نسل کی گائے اور بھینسوں کی نسل پر کام نہ کرنے کی وجہ سے ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں درآمدکی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے لیکن ہم ہر سال کروڑوں ڈالر کے جانور اور مصنوعی نسل کشی کےلئے سیمن امپورٹ کر رہے ہیں اس لئے ہمیں ڈیری سیکٹر کی بحالی کےلئے تسلسل کے ساتھ منصوبہ شروع کرنا ہوگا تاکہ لوکل بریڈ کی فی کس اوسط بہتر کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ دودھ کی انتہائی کم پیداوار کی وجہ سے ہمیں 100 ملین جانورمجموعی طور پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اپنی لوکل نسل کو بہتر کرنے کیلئے 2018 میں ڈیری جنیٹکس کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کی تمام ٹیکنالوجی بھارت میں امپورٹ کی تاکہ لوکل نسل پر کام کیااور جانوروں و سیمن کی امپورٹ کو روکا جاسکے جس میں انہوں نے نہ صرف شاندار کامیابی حاصل کی بلکہ حال ہی میں اس کمپنی سے سیکسل60 مشینیں امپورٹ کرکے ایشیا کے سب سے بڑے سیکسڈ سیمن سینٹر کا افتتاح کیا۔

انہوں نے اپیل کی کہ اینیمل ہسبینڈری کمیشن پاکستان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جائے جو سیکسل ٹیکنالوجی پاکستان لانے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے تاکہ ہماری لوکل نسل کو بہتر کیا جا سکے نیزہم ہر سال کروڑوں ڈالر کے دودھ، جانور اور سیمن کی امپورٹ کو روک کر پاکستان کے زرمبادلہ کے مسائل سے نکلنے میں مجموعی طور پراپنا کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے اپیل کی کہ فوری طور پر دنیا بھر سے لائیو سٹاک کمپنیوں کواپنی ٹیکنالوجی پاکستان لانے کےلئے دعوت دی جائے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیوں کےلئے قانون میں آسانی پیدا کی جائے تاکہ دنیا بھر کی کمپنیاں پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل کریں اور دودھ وگوشت کی فی کس پیداوارمیں اضافہ سمیت صارف کو سستا دودھ اور گوشت میسر آسکے۔