پاک ایران دوطرفہ تجارت کو سالانہ 5 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، مہر کاشف یونس

53
غیر وابستہ تحریک کے سربراہی سطح کے رابطہ گروپ کا اجلاس ، تحریک کے چیئرمین الہام علیوف کی کووڈ-19 کے باعث دنیا پر پڑنے والے منفی اثرات کے تدارک اور بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل کے قیام کی تجویز

اسلام آباد۔28جولائی (اے پی پی):پاکستان اور ایران کے تجارتی پوٹینشل سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائےتودوطرفہ تجارت کا حجم موجودہ سطح سے بڑھ کر سالانہ 5 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات جمعرات کو یہاں وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے میاں حسنین رضا مرزا کی قیادت میں صدر گولڈ رنگ اکنامک فورم تھنک ٹینک کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔

انھوں نے کہا کہ پرانے دور میں پورے عالمی معاشی نظام کا بڑا حصہ بارٹر ٹریڈ پر مبنی تھا جسے اب جدید طریق کار سے تبدیل کر دیا گیا ہے تاہم بارٹر ٹریڈ آج بھی دنیا میں اپنی قدیم شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت تجارت نے چند ماہ قبل دونوں ممالک کے درمیان بارٹر ٹریڈ کے لیے بوجھل اور پیچیدہ طریقہ کار اور پیرامیٹرز کو تبدیل کرکے اسے سہل بنا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان 2006 میں ترجیحی تجارتی معاہدہ ہوا تھا جو ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے رو بہ عمل نہیں آسکا ، اب بھی دونوں ممالک کی باہمی تجارت ان کی حقیقی صلاحیتوں سے بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے دوروں سے سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کرکے باہمی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

مہر کاشف یونس نے فضائی اور سڑک کے راستے باہمی تجارت کے فروغ کے لیے مختلف شعبوں میں ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو دور کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے زمینی راستے کے ذریعے سستے تجارتی طریقہ کار کو ابھی تک مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے سمگلنگ کے خطرے کو روکنے کے لیے ایرانی اشیاءپر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق وسائل سے مالا مال ہیں اور نجی شعبوں کی فعال شرکت کے ذریعے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان،ایران اور ترکی بارٹر ٹریڈ کے ذریعے اپنی مصنوعات کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ تشکیل دے سکتے ہیں۔ وفد کے سربراہ میاں کمال محمود امجد نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دیرپا، گہرے اور برادرانہ تعلقات ہیں اور ان تعلقات کی عکاسی ان کی باہمی تجارت میں بھی ہونی چاہیے۔