پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت اجلاس ، وفاقی وزیر مذہبی امور سنیٹر طلحہ محمود کی خصوصی شرکت

117
National Accounts Committee
National Accounts Committee

اسلام آباد۔12جولائی (اے پی پی):پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی ایس سی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا ۔

اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی ۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سنیٹر طلحہ محمود نے پی اے سی اجلاس میں خصوصی طور پرشرکت کی ۔ اس موقع پر ان کے اور چیئرمین پی اے سی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ۔

نور عالم خان نے کہا کہ وزیر صاحب آپ آج کیسے آ گئے۔ طلحہ محمود نے کہا کہ میں آپ کا احتساب کرنے آیا ہوں۔ آپ آجکل اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں۔آڈٹ اعتراضات کے بجائے آپ دیگر معاملات ڈسکس کرتے ہیں۔ نورعالم خان نے کہا کہ پی اے سی کسی پبلک پٹیشن پر بھی نوٹس لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک نے تین ارب ڈالر قرضوں کے معاملہ پر بریفنگ دی۔

قرضے حاصل کرنے والے افراد کے نام دئیے گئے لیکن بینکوں کے نام نہیں بتائے گئے۔ گزشتہ روز ارکان کی تعداد کم ہونے کے باعث معاملہ پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ سید غلام مصطفی شاہ نے کہا کہ قرضوں کا معاملہ ایف آئی اے یا نیب کو بھیجا جائے۔ نورعالم خان نے کہا کہ ہم ذاتی مفادات کیلئے کام نہیں کر رہے۔ جہاں بھی عوام کا پیسہ ضائع ہو گا وہاں پی اے سی متحرک ہو گی۔ پی اے سی نے تین ارب ڈالر قرضوں کا معاملہ پر ایف آئی اے اور نیب کو گزشتہ دور حکومت میں تین ارب ڈالر کے آسان قرضوں کے اجراء کے معاملہ پر مشترکہ انکوائری کہ ہدایت کی اور ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل کو پندرہ روز میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

وزارت داخلہ کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے آڈٹ حکام نےایف سی خیبر پختونخوا کی جانب سے نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے حاصل معاوضہ پر بینک منافع قومی خزانے میں جمع نہ کروانے کا انکشاف کیا ۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایف سی کی 52 پلاٹونز کو قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سیکورٹی پر مامور کیا گیا۔کمپنیوں سے تنخواہوں کی مد میں حاصل رقم پر ایک کروڑ 74 لاکھ منافع ہوا جو خزانے میں جمع نہیں کروایا گیا۔ آئی جی ایف سی کے پی نے کہا کہ تنخواہوں کی فراہمی کیلئے اکائونٹس متعلقہ کمپنیوں کے ہیں۔ رقم پر منافع متعلقہ کمپنیوں کو ادا کر دیا جاتا ہے۔ پی اے سی نے تصدیق ہونے کی صورت میں آڈٹ اعتراض نمٹا دیا۔ چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ ایف سی اہلکاروں کی تنخواہ کتنی ہے۔ آئی جی ایف سی نے کہا کہ اسوقت ایف سی اہلکار کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے۔

نورعالم خان نے کہا کہ چالیس ہزار روپے تنخواہ کے کیے کون اپنی جان دے گا۔ پی اے سی نے ایف سی اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کر تے ہوئے کہا کہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اگر فنڈز کا مسئلہ ہے تو ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہیں دے سکتے ہیں۔ ریاض مزاری نے کہا کہ کوئی سیاسی بیان نہ دیں۔

پی اے سی نے کہا کہ وزیراعظم، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور خزانہ سے درخواست ہے کہ اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھائی جائیں ۔ چیئرمین پی اے سی نےقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس اسلحے کے فقدان کا بھی نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ صرف تیس گولیوں یا ایک میگزین سے کام نہیں چلے گا۔کسی اہلکار کے شہید ہونے کے بعد اس کی بیوی بچے خوار ہو جاتے ہیں۔ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس مناسب اسلحہ ہونا چاہئے۔