22.1 C
Islamabad
جمعرات, اپریل 3, 2025
ہومخصوصی فیچرزپشاورکے علاقے گھڑی چندن میں60ہزارکنال رقبے پر 3.2ملین پودے لگا کر تین...

پشاورکے علاقے گھڑی چندن میں60ہزارکنال رقبے پر 3.2ملین پودے لگا کر تین چھانگامانگاجنگل کے برابر مصنوعی جنگل قائم

- Advertisement -

پشاور۔ 11 جولائی (اے پی پی):پشاورکے علاقے گھڑی چندن میں60ہزارکنال رقبے پر 3.2ملین پودے لگا کر تین چھانگامانگاجنگل کے برابر مصنوعی جنگل بنایا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا کے حکا م کا کہنا ہے کہ گھڑی چندن مصنوعی جنگل میں تقریباہرقسم کے پودے اگائے گئے ہیں جن میں شیشم ،بیر،پلوسہ،کیکر اوردیگرشامل ہیں ،

پشاورکے علاقے گھڑی چندن میں60ہزارکنال رقبے پر 3.2ملین پودے لگا کر تین چھانگامانگاجنگل کے برابر مصنوعی جنگل قائم

- Advertisement -

گڑھی چندن میں لگائے گئے بیس فیصد پودے(کیکر) دو فیصد بیری اور کچھ ششیم اور بقیہ یوکلپٹس کے ہیں ، اس جنگل کے اگانے پر2014 میں کام شروع کیاگیاجس کیلئے خصوصی طورپرڈویلپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی جس سے پانچ چھ سالوں کی انتھک محنت سے گھڑی چندن علاقہ بہت بڑے جنگل میں تبدل ہوچکاہے جس سے علاقے کے ماحول پرکافی دورس اثرات پڑرہاہے اوریہاں کادرجہ حرارت پشاورکے دیگرعلاقوں کے مقابلے میں 3سے 4درجے کم رہتاہے جس سے مقامی افرادانتہائی لطف اندوزہورہے ہیں، گھڑی چندن جنگل میں 25لاکھ مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے ہیں جن کے دیکھ بھال کیلئے ہم نے سکیورٹی گارڈ بھی رکھے ہیں،حکومت 2023تک پورے ملک میں 10ارب درخت لگانے کے لئے پرعزم ہے، یہ منصوبہ گیم چینجر ثابت ہو گا،حکومت کا گرین سٹیمولس پروگرام ملک کے سر سبز رقبہ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوششوں کا بھی حصہ ہے۔

مقامی باشندے شفقت نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ جنگل سے یہاں کی آب وہواپرکافی اچھے اثرات پڑرہے ہیں ،مقامی افرادگرمیوں کے موسم میں یہاں پرآکرجنگل میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر کافی لطف اندوزہوتے ہیں ۔ماہرجنگلات گلزار الرحمن نے اے پی پی کو بتایا کہ مصنوعی گھڑی چندن جنگل نے دوائوں کے پودوں کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے علاوہ پشاور میں کافی حد تک فضائی آلودگی پر قابو پالیا ہے جبکہ جنگلی حیات کی رہائش کے طور پر بھی کام میں آ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جنگلات میں اضافے کیساتھ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور خوشگوار ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے، کامیاب گرین پاکستان پروگرم سے جنگلات کے رقبے میں 6.1فیصد ہو ا ہے، 5لاکھ51ہزار ایکٹر رقبے پر درخت لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منفی ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے کیلئے ہمیں صوبے میں زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنی ہو گی تاکہ صوبے کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچا یاجا سکے کیونکہ ہمیں آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ شجر کاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی ضروری ہے اور صوبے کے غریب عوام کو ان کی دہلیز پر روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے ہیں ۔

پشاورکے علاقے گھڑی چندن میں60ہزارکنال رقبے پر 3.2ملین پودے لگا کر تین چھانگامانگاجنگل کے برابر مصنوعی جنگل قائم

انہوں نے کہا کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کیلئے ٹمبر مافیا کے خلاف پہلے ہی کارروائیاں زور و شور سے جاری ہیں مگر آنے والی نسلوں کیلئے درختوں کی حفاظت حکومت کے ساتھ ساتھ ہر شہری کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخت اور نوجوان دونوں ہمارے مستقبل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کیلئے متعلقہ علاقوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیلئے متبادل ذرائع کی فراہمی ضروری ہے تاکہ جنگلات کو تحفظ دیا جا سکے ۔انہو ں نے کہا کہ حکومت کا شروع کردہ گرین پاکستان منصوبہ کامیابی کی طرف گامزن ہے، جنگلات خیبرپختونخواکی پہچان اور ثقافت کا اہم جز ہیں مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہم اپنے اس ثقافتی ، معاشرتی اور معاشی ورثے سے محروم ہور ہے ہیں لہذا عوام کو چاہئے کہ وہ حکومتی اداروں کے ساتھ مون سون شجر کاری میں اپنے کردار ادا کریں ۔جنوبی وزیر ستان میں جنگلات کی کٹائی کے حامی ایک مقامی شخص زمیندار کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت حکومت کے کہنے پر جنگلات کی کٹائی کو بند نہیں کریں گے،

وہ چلغوزے کو نہیں بلکہ زندہ وار کے پہاڑی سلسلوں میں دوسرے درخت کاٹ رہے ہیں۔زمیندار کے مطابق بعض ایسے درخت ہیں جو چلغوزے کے درختوں کے قریب ہونے کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں لہذا ان کی کٹائی لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان درختوں کی لکڑیوں سے کوئلہ بنا کر افغانستان بھیج دیتے ہیں، ان پہاڑی علاقوں میں لکڑیاں کاٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا روزگار نہیں، اگر حکومت نے روزگار کے مواقع دیئے تو جنگلات کی کٹائی خود بخود بند ہوجائے گی۔

جنوبی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب پہاڑی سلسلے کو زندہ وار کہتے ہیں، جہاں قیمتی درختوں کو کاٹنے کے بعد کوئلہ بنا کر افغانستان سپلائی کر دیا جاتا ہے۔ خمرانگ سکیورٹی چیک پوسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق افغان سرحد کے قریب تحصیل برمل سے روزانہ 100 سے زیادہ گاڑیاں افغانستان جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ وزیرستان میں گیس اور بجلی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ روزمرہ معمولات، سردی سے محفوظ رہنے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے درختوں کو کاٹ کر جلاتے اور بیچتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طورپر ملک بھرمیں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے ،

پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35لاکھ 90ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33لاکھ 20ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت نے عمران خان کے 10 بلین ٹری سونامی پروگرام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 2023-2022 کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے 9 ارب 45 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے ہیں تاہم نئی حکومت کو اب تک منصوبے کی غیر شفافیت سے متعلق 14 شکایات موصول ہوئی ہیں جن کی نہ صرف محکمانہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں بلکہ معاملہ نیب کو بھیجنے پر غور ہو رہا ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال میں اس منصوبے کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے گئے تھے تاہم وزارت خزانہ کی طرف سے 9 ارب 55 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے سابق حکومت کی طرف سے جاری کی گئی رقم کے مطابق رقم بجٹ میں مختص کر دی ہے۔وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ 10 بلین ٹری سونامی منصوبہ بنیادی طور 2017 کے گرین پاکستان پروگرام کا حصہ ہے جس کے لیے اس وقت ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ خیبر پختونخوا کے بلین ٹری منصوبے کی طرز پر 10 بلین ٹری سونامی منصوبے میں تبدیل کر دیا اور اس کے لیے 125 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا۔ موجودہ حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو جاری رکھنے کی بنیادی وجہ اگرچہ اس کی افادیت ہے تاہم ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ منصوبہ مختلف عالمی ڈونر اداروں کے تعاون، وفاقی اور صوبائی وسائل سے چل رہا ہے۔ اسے بیک جنبش قلم ختم کرنا ممکن نہیں تھا اور اگر ایسا کیا جاتا تو یہ عالمی ذمہ داریوں سے راہ فرار ہوتا۔

حکام نے بتایا ہے کہ اس منصوبے کی افادیت سے متعلق اگرچہ بہت سے عالمی ادارے اپنی رائے دے چکے ہیں اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کی تعریف کرچکے ہیں لیکن قومی سطح پر اس حوالے سے اب تک 14 شکایات موصول ہوئی ہیں جو غیر شفافیت سے متعلق ہیں جن کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں، وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان اس حوالے سے متعدد اجلاس بھی بلا چکی ہیں۔

اس منصوبے میں شفافیت کو یقینی بنانے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ جتنے درخت لگانے کا دعوی کیا جا رہا ہے وہ درست ہیں بھی یا نہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی نے مختلف اداروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ مارچ 2021 میں ایف او اے، آئی یو سی این اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ذریعے سروے کرایا گیا۔ اس سروے میں منصوبے پر پیش رفت کو تسلی بخش قرار دیا گیا تاہم وزارت نے رواں سال کے شروع میں ایک اور تفصیلی سروے کرایا ہے جس کی رپورٹ دسمبر میں منظر عام پر آئے گی۔دوسری جانب وزارت کے اعلی حکام نے منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے آنے والی عوامی شکایات کے بعد سیٹلائٹ سروے اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو آنے والی شکایتوں کی روشنی میں تحقیقات میں معاون ثابت ہوگا۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=373614

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں