اسلام آباد۔18فروری (اے پی پی):پشتو کے نامور شاعر، ادیب، ناول نگار، مترجم اور پشتو غزل کے شہنشاہ امیر حمزہ خان شنواری کی 29ویں برسی اتوار کو منائی گئی۔ وہ لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے اور میٹرک کے بعد ادبی فنون کی طرف مائل ہو گئے۔ 1935 میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو پشاور کے لیے پہلا پشتو ڈرامہ ‘زمیندار’ لکھا۔ اس کے بعد 1941 میں بمبئی سے ریلیز ہونے والی پہلی پشتو فلم ‘لیلیٰ مجنون’ کی کہانی، مکالمے اور بول لکھے۔
انہوں نے ہدایت کاری اور پلے بیک سنگنگ کے فرائض بھی انجام دیئے۔قیام پاکستان کے بعد حمزہ شنواری نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے بے شمار ڈرامے، فیچرز اور تقاریر لکھیں۔ بطور مترجم انہوں نے رحمان بابا کی 204 غزلوں کا اردو میں ترجمہ کیا جبکہ علامہ اقبال کی ‘جاوید نامہ’ اور ‘ارمغانِ حجاز’ کا پشتو میں ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے ‘نہج البلاغہ’ کا پشتو میں ترجمہ بھی کیا۔امیر حمزہ شنواری نے پشتو ادب کی ہر صنف میں اپنا حصہ ڈالا اور متعدد نثری اور شاعرانہ کاموں کے ذریعے تصوف، شاعری، نفسیات اور ثقافت میں ایک بھرپور میراث چھوڑا۔
ان کی تصنیف ‘تجلیاتِ محمدیہ’ کو پشتو صوفی ادب میں ایک اہم کام سمجھا جاتا ہے۔انہیں احترام کے ساتھ ‘حمزہ بابا’ یا ‘پشتو غزل کے باپ’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے غزل کو پشتو شاعری میں متعارف کرایا۔امیر حمزہ شنواری نے انگریزی اخبار ‘خیبر میل’ کے پشتو صفحہ کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا، جہاں انہوں نے مختلف سماجی اور ادبی موضوعات پر ‘زور فکرون’ (گہرے خیالات) کے عنوان سے روزانہ کالم لکھے۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اورستارہ امتیازسے نوازا۔
امیر حمزہ شنواری 18 فروری 1994 کو انتقال کر گئے اور انہیں ان کے آبائی علاقے میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج بھی اس عظیم صوفی شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سالانہ ہزاروں لوگ ان کے مزار پر جمع ہوتے ہیں۔