اسلام آباد۔8نومبر (اے پی پی):وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اس امر پر زور دیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ا پنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کریں اور مٹھی بھر فسادیوں کو تحفظ دینے سے گریز کریں ور نہ اس کے آئینی اثرات مرتب ہونگے ، عدالت عظمی اور عدالت عالیہ اس معاملے کا نوٹس لیں ، پی ٹی آئی کا لانگ مارچ نہیں بلکہ کے پی کے اور پنجاب وفاق پر حملہ آور ہونے آرہے ہیں ،انقلاب کا دعوی کرنے والا شخص اپنی مرضی کی ایک جھوٹی ایف آئی آردرج نہیں کراسکا ، انھیں اپنی اوقات کا پتہ ہونا چاہیے ۔وہ منگل کو پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومتوں کی ایما اور پولیس کی حفاظت میں فتنہ فساد مارچ اور احتجاج ہورہا ہے ، مٹھی بھر لوگ ویگن یا گاڑی پر آتے ہیں ،گاڑی سٹرک پر کھڑی کر کے ٹائرز کوآگ لگا کر ٹریفک جام کر دیتے ہیں اس کی ویڈیو بنا کر پارٹی قیادت کو بھجواتے ہیں کہ عوام کا سمندر احتجاج کر رہا ہے، لوگ ہسپتالوں، بچوں کو سکول لانے ،لیجانے ، غمی اور خوشی میں شریک ہونے سے قاصر ہیں ،جو عوام فسادیوں سے بات کرنے کی کوشش کریں تو پولیس سامنے آجاتی ہے ، ایک سائیڈ پر چند فسادی بیٹھتے ہیں تو دوسری سائیڈ پولیس نے بیرئیر لگا کر مظاہرین کو تحفظ دے رکھا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عوام کا تحفظ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے ، وزارت داخلہ نے کے پی کے اور پنجاب پولیس کو تحریری طور پر یاد دلایا ہے کہ آج تیسرا دن ہے کروڑوں لوگ چند سو شرپسند احتجاجیوں کی وجہ سے خوار ہورہے ہیں ۔ صوبائی حکومتیں اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اس کے آئینی اثرات آئیں گے ، عدالت عظمی اور دونوں صوبوں کی عدالت عالیہ سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں ، یہ قانون اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ، عام آدمی اور شہری کو تکلیف پہنچانے نکلے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم کہتے تھے کہ یہ فتنہ اور فسادی ہے ،آج ہماری بات ثابت ہوچکی ہے یہ عام لوگوں کو تنگ کررہے ہیں ، پنجاب اور کے پی کے میں بیٹھ کر عوام کے لئے وبال جان بن چکے ہیں، عوام نے ان کے فتنہ فساد مارچ کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے کے تمام اضلاع میں چند ہزار لوگ ان کے احتجاج کا حصہ ہیں، یہ ہے ان کا عوام کا سمندر ، پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے ملک کو ہیجانی کیفیت میں ڈالے رکھا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس صورتحال کی پر زور مذمت کرتے ہیں ، دونوں صوبائی حکومتیں قومی شاہراہوں ، موٹرویز کو فوری طور پر کھلوائیں ، فسادی اور شر پسند عناصر جو عوام کے لئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں انکے خلاف کارروائی کریں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم، اتحادی حکومت کی جانب سے عوام سے معذرت خواہ ہیں ، انھیں یقین دلاتے ہیں کہ اس صورتحال کو زیادہ دیر تک چلنے نہیں دیں گے، صوبائی حکومتوں کو ان کے آئینی کردار میں لیکر آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ فسادیوں اور شر پسندوں کو خبر دار کرتا ہوں کہ عوام کے ردعمل سے بچیں ، اگر انھوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو چھپنے اور بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون میں درج پرامن احتجاج کی حدود میں رہ کر اپنی بات کو آگے بڑھایا جائے ،غیر قانونی فتنہ اور فساد پر مبنی عمل سے پیچھے ہٹیں ۔
انہوں نے کہا کہ عمرا ن خان نیازی نے سینئر صحافیوں سے جو بات منسوب کی ہے اسکی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اپنی سیاسی جدوجہد کو نیازی نے جہاد کا درجہ دیا ، مدینہ کی ریاست کا راگ ا لاپا ، پونے چار سالوں میں فرح گوگی کی ریاست کو مدینہ کی ریاست کا نام دیئے رکھا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر آباد واقعہ میں ملزم نوید ہی اصل ملزم ہے ، تمام تر ابتدائی انکوائری ، تفتیش جس طرح سے آگے بڑھ رہی ہے اس میں کوئی اور ملزم نہیں ہے ، جسطرح احسن اقبال اور خواجہ آصف پر حملوں کی طرح نوید بھی متاثر ہو کر آیا اور عمران خان پر حملہ آور ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ حملہ آور کے ٹیلی فون سے جو چیزیں ملیں ہیں وہ بہت زیادہ متاثر لگتا ہے، اس کا کسی سیاسی اور مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ زیادہ عرصہ سعودی عرب میں رہا ، تین روز قبل اسلحہ خریدا تھا ، جہاں جہاں اس کا لنک ملا ان سے تفتیش ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نیازی کی کوشش تھی کہ اسی بہانے ملک دشمن ، فتنہ ،فساد پر مبنی ایجنڈے کی پذیرائی کرے ، فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ایف آئی آر مدعی کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتی، کل اگر کسی کا نام لکھ کر ایف آئی آر درج کرانے آجائے تو ایس ایچ او آنکھیں بند کر کے ایف آئی آر ان کے ہاتھ میں پکڑا دے ، جو بھی نام لیا جائے اسکا لنک ثابت کرنا پڑتا ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ فائل ورک ہورہا ہے اسکے بعد سبھی کچھ ہوگا، ہمیں پتہ ہے کہ انہوں نے بھاگ کر کہاں جانا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے دو صوبوں میں گورنر راج لگانے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کرنا ہے ،امیر مقام ہماری کابینہ کے ممبر ہیں انکی رائے بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب کے دعوی کرنے والا شخص ایک ایف آئی آر اپنی مرضی کی درج نہیں کراسکے ،انھیں اپنی اوقات کا پتہ ہونا چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کو ایف سی اور رینجرز فراہم کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے خط چیف جسٹس آف پاکستان جو جاچکا ہے، ارشد شریف قتل حوالے سے کینیا سے واپس آنے والی ٹیم سے ملاقات ہوئی ہے، بہت سی چیزوں کی انکوائری ہونے والی ہے ، ٹیم کو کہا ہے کہ وہ دوبئی میں جائیں اور مزید تحقیقات کریں ، کینیا حکام سے کمیٹی نے جو ڈیٹا مانگا ہے اس کے لئے وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا حکومت سے رجوع کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ارشد شریف کو قتل کیا گیا ہے ، ٹارگٹڈ قتل تھا ، وہاں کی پولیس نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ ثابت نہیں ہوتا ،کینیا پولیس کے موقف میں شکوک و شبہات ہیں ، اس قتل میں دنوں بھائی وقار اور خرم کسی صورت باہر نہیں ہیں، ان کا ڈیٹا ، سرگرمیاں ، ارشد شریف کے وہاں جانے اور رہنے بارے میں بھی باریک بینی سے جائزہ ناگزیر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کینیا جانے والی دو رکنی ٹیم کی محنت اور لگن قابل تحسین ہے ، ٹیم نے کینیا میں ایک ایک چیز کا جائزہ لیکر اپنی فائنڈنگ دیں ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے خط لکھا ہے ،چیف جسٹس جس کی مرضی ہے سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنا دیں، ارشد شریف کی والدہ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں ، ان کی رائے اور تجویز بھی اہمیت رکھتی ہے، ہم پرامید ہیں کہ ارشد شریف کے قاتلوں کی جلد شناخت ہوجائے گی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت آزاد وجموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ملتوی نہیں کرانا چاہتے ، جتنی فوج اور ایف سی فورس مانگ رہےہیں اتنی ہمارے پاس نہیں ہے ، انتخابات آگے لے جائیں ، حالات معمول پر آنے پر ایسا ممکن ہوسکے گا ۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی اسلام آباد سمیت کے پی کے اور پنجاب میں چند شر پسند عناصر سڑکیں بلا ک کررہے ہیں ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے ایک سوال کے جواب کہا کہ عسکری ادارے کا یہ موقف ہے کہ وفاقی ادارے پر دشنام ترازی ہورہی ہے، ایف آئی اے معاملے کی انکوائری کر رہا ہے ، پینل کورٹ یا پیکا ایکٹ کے جرم بنتا ہے تو اسکے مطابق وفاق اور ایف آئی اے کارروائی کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ کینیا پولیس سے متعلق بھی یہ چیزیں سامنے آئے ہیں کہ وہاں کی پولیس ایسے کام کرنے میں مشہور ہے ، کسی کے کہنے پر بھی ایسا کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ فائر کرنے والوں کو معلوم ہے کہ گاڑی میں جو دو لوگ ہیں ان میں ارشد شریف کس سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے ، ڈرائیو کرنے والے کو بھی سب معلوم تھا ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے بھی درخواست کرونگا کہ وہ کینیا حکومت سے دوبارہ بات کریں اور جو ڈیٹا ہمیں ضرورت ہے وہ فراہم کیا جائے ، ارشد شریف کا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی فراہم کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات کی بنیاد پر قومی ادراوں یا یکججہتی کے خلاف کام کریگا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف نیب کی انکوائری تین سال سے چل رہی تھی ، تین سال کے دوران اس میں کچھ نہیں ہوا جس پر عدالت نے میری درخواست منظور ہوچکی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لندن میں جو درخواست دی گئی ہے، لندن اپنے کریمنل سسٹم کے تحت ہی فیصلہ کریگا ، یہ قانون ہی نہیں ہے کہ کسی بھی واقعہ پرکوئی شخص کسی کا نام لیکر تھانے چلا جائے ، ایسا ہونا شروع ہوا تو پھر ہر شخص اور ادارے کے خلاف ایف آئی آر کٹ جائے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نیب کے ادارے کو کنٹرول نہیں کرتے ، نیب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں ۔