لاہور۔14جون (اے پی پی):پنجاب کا مالی سال 2021-22 کا 2653 ارب روپے حجم کا بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا، بجٹ میں وفاقی محصولات کی وصولی کا ہدف 5829 ارب روپے متوقع ہے جس میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو 1684 ارب روپے منتقل کئے جائیں گے، صوبائی محصولات کیلئے 405 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 1428 ارب روپے لگایا گیا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے صوبہ کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 560 ارب روپے کے ریکارڈ فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں،آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 370 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں،
تعلیم کا مجموعی بجٹ 442 ارب روپے رکھا گیا ہے، بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے 189 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا، ترقیاتی بجٹ میں سوشل سیکٹر تعلیم اور صحت کیلئے 205 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے پیر کے روز پنجاب اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ پنجاب کا نئے مالی سال کا بجٹ تحریک انصاف کے منشور کے عین مطابق اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشی ترقی کے تمام اشاریئے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کا تخمینہ 3.94 فیصد لگایا گیا ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تخمینے سے زیاد ہ ہے ۔ رواں مالی سال کے اختتام پر زر مبادلہ کے ذخائر 29 ارب ڈالر اور برآمدات 25 ارب ڈالر کو پہنچ چکی ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کیلئے 145 ارب 40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 92 فیصد زیادہ ہیں۔
ترقیاتی بجٹ میں اکنامک گروتھ کیلئے پیداواری شعبوں صنعت، زراعت، لائیو سٹاک، ٹورازم، جنگلات و دیگر کیلئے 57 ارب 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 234 فیصد زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمایاں منصوبوں میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام، سڑکوں کی بحالی، مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کیئر ہسپتال، سکولوں کی اپ گریڈیشن، معاشی ترقی کی خصوصی مراعات، ورک فورس کی تیاری، انوائرمنٹ و گرین پاکستان، پبلک ہاﺅسنگ سکیم و دیگر شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں مجموعی طور پر صحت کا بجٹ 369 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جو رواں مالی سال سے 30 فیصد زائد ہے۔ اس میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 96 ارب روپے جبکہ جاری اخراجات کیلئے 273 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیم کے شعبہ میں مجموعی بجٹ 442 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں سال سے 13 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 54 ارب 22 کروڑ روپے جبکہ جاری اخراجات کیلئے388 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں جنوبی پنجاب کیلئے 189 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کئے گئے ہیں جس میں چولستانی علاقوں کی ترقی کیلئے ایک ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 295 ارب روپے کا ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام اگلے دو سال میں بلاتخصیص صوبہ کے 36 اضلاع میں خدمات کی فراہمی کو بہتر بنائے گا۔
بجٹ میں لاہور کی مرکزی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 28.3 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے جس کے تحت شہر میں انفراسٹرکچر کے میگا پراجیکٹس لگائے جائیں گے، پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں معاشی ترقی کیلئے 10 ارب روپے کا خصوصی پیکیج دیا ہے اس کے ساتھ رواں مالی سال میں کاروبار کی بحالی اور ترقی کیلئے فراہم کردہ ٹیکس ریلیف کو آئندہ مالی سال میں بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے آئندہ بجٹ میں 51 ارب روپے کا جامع پیکیج مختص کیا گیا ہے جس کے تحت بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو ایک فیصدپر برقرار رکھا جائے گا ، 40 ارب روپے کی اس رعایت کا مقصد کنسٹرکشن کے شعبہ میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گا۔
رواں مالی سال میں جن 25 سے زائد سروسز پر پنجاب سیلز ٹیکس کی شرح کو 16 فیصد سے 5 فیصد کیا گیا تھا ان کو آئندہ مالی سال میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔ آئندہ مالی سال میں 10 مزید سروسز پر سیلز ٹیکس کو 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے ان میں بیوٹی پارلر، فیشن ڈیزائنر ، ہوم شیف ،آرکیٹیکٹ ، لانڈریز، ڈرائی کلینرز، سپلائی آف مشینری، ویئر ہاﺅس ، ڈریس ڈیزائنر اور رینٹل پلڈوزر وغیرہ شامل ہیں۔ کال سنٹر پر ٹیکس کی شرح کو ساڑھے 19 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، رواں مالی سال میں ریسٹورنٹس کیلئے کیش ادائیگی پر ایکٹ کی شرح 16 فیصد جبکہ بذریعہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ادائیگی پر 5 فیصد کیا گیا تھا ۔ اگلے مالی سال کیلئے موبائل والٹ اور کیو آر کوڈ کے ذریعے ادائیگی پر بھی ٹیکس کی شرح 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن رواں مالی سال کی طرح آئندہ مالی سال میں بھی پراپرٹی ٹیکس 2 اقساط میں ادا کیا جا سکے گا۔ پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہکلز ٹیکس پر نافذ سرچارج پینلٹی کو آئندہ مالی سال کی صرف آخری دو سہ ماہیوں تک محدود کرنے کی تجویز ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کیلئے برقی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر حوصلہ افزائی کیلئے الیکٹرک وہیکلز کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن فیس کی مد میں 50 فیصد اور 75 فیصد تک چھوٹ دی جائے گی۔
صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں 362 سہولت بازاروں کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کیلئے ماڈل بازار اتھارٹی کا قیام عمل میں لا رہے ہیں اس کیلئے آئندہ سال میں ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور توسیع کیلئے صوبے میں 380 ارب روپے مالیت کی 1769 ترقیاتی سکیمیں شروع کی جائیں گی جن کے تحت 13 ہزار کلومیٹر لمبی سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور توسیع کی جائے گی جس کیلئے 58 ارب روپے کی رقم مختص کی جائے گی۔
حکومت آئندہ مالی سال میں پیری ہاﺅسنگ سکیم متعارف کروا رہی ہے جس کے تحت اوسطاً ایک گھر 14 لاکھ روپے کی قیمت پر میسر ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کیلئے 3 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ نیا پاکستان کے سکیم کے تحت 35 ہزار اپارٹمنٹس بنائے جائیں گے اس کے علاوہ صوبہ کے شہروں میں جدید انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے 22 ارب 44 کروڑ روپے کے فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ حکومت ورلڈ بینک کی معاونت سے 86 ارب روپے کی لاگت سے 16 پسماندہ ترین تحصیلوں میں جامع منصوبے کا آغاز کر رہی ہے جس کے تحت 100 فیصد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی، سالڈویسٹ مینجمنٹ ، نکاسی آب کی سہولیات فراہم کی جائیں گی جس کیلئے چار ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے پلانٹ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی تنصیب کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جس کے تحت لاہور فیصل آباد سمیت 5 بڑے شہروں میں پلانٹس لگائے جائیں گے جس کیلئے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔بجٹ میں محکمہ زراعت کے ترقیاتی بجٹ کو 306 فیصد اضافے کے ساتھ 7 ارب 75 کروڑ روپے سے بڑھا کر 31 ارب 50 کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے۔
وزیراعظم کے ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام کیلئے 2 ارب 56 کروڑ روپے سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کیلئے 4 ارب 50 کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے۔ شہدا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے، ان کے پسماندگان کی مالی معاونت کیلئے بجٹ میں 14 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقوم مہیا کی جائیں گی۔ پنجاب احساس پروگرام کیلئے گزشتہ سال کے 12 ارب روپے کی نسبت 18 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں محکمہ سیاحت پنجاب کیلئے 1 ارب 25 کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا گیا ہے جبکہ 20 نئے منصوبہ جات تجویز کئے گئے ہیں۔
محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کر کے 2 ارب 50 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں، سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا تاہم گریڈ ایک تا گریڈ 19 کے وہ 7 لاکھ 21 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین جنہیں پہلے کسی قسم کا کوئی اضافی الاؤنس نہیں دیا گیا ان کی تنخواہوں میں خصوصی الاؤنس کی مد میں 25 فیصد کا اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ علاوہ ازیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کم سے کم اجرت 17500 سے بڑھا کر 20000 ہزار ماہانہ مقرر کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ہنر مند اور نیم ہنر مند افراد کی اجرتوں میں 14.28 فیصد اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے۔