پولی تھین بیگز اور پلاسٹک کی بوتلوں جیسی مصنوعات ملک میں سنگین آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط کا باعث بن رہی ہیں، ، وفاقی وزیر شیری رحمان

80

اسلام آباد۔5جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پولی تھین بیگز اور پلاسٹک کی بوتلوں جیسی مصنوعات ملک میں سنگین آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط کا باعث بن رہی ہیں، عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو آلودگی کا سبب بننے والی پلاسٹک کی مصنوعات کو مرحلہ وار ختم کرنے کے سلسلے میں مینوفیکچررز پر دبائو بڑھانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔

پیر کو یہاں بین الاقوامی یونین فار کنزرویشن آف نیچر-پاکستان (آئی یو سی این)، وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور سرینا ہوٹلز کے زیر اہتمام عالمی یوم ماحولیات کی مناسبت سے ‘بیٹ پلاسٹک پلوشن’ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے عام لوگوں پر زور دیا کہ آگے بڑھیں اور پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف مہم میں شامل ہوں کیونکہ بڑے پیمانے پر حمایت اور قبولیت کے بغیر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ماحول کو تباہ کرنے کے اثرات واضح ہیں، پلاسٹک ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ہم نے پچھلے 80 سالوں میں جو کچھ کیا ہے اس کی مثال ہزار سال میں نہیں ملتی۔

انہوں نے نے پلاسٹک کی جگہ شیشے کی بوتلوں کے استعمال پر سرینا ہوٹلز کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم وزیراعظم ہائوس، وفاقی وزارتوں اور سرکاری محکموں میں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے کا سفر بھی شروع کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کے بارے میں بہت کم ڈیٹا دستیاب ہے کیونکہ ملک میں 70 فیصد سے زیادہ پلاسٹک کے کچرے کو ری سائیکل نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پلاسٹک پر تین سال میں پابندی لگائی جا سکتی ہے لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

شیری رحمان نے کہا کہ ملک میں تقریباً 3.3 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک تیار ہوا جو 2040 تک 12 ملین میٹرک ٹن سے تجاوز کر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو پلاسٹک کا استعمال بند کرنا ہو گا، وزارت ماحولیاتی تبدیلی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور اس سلسلے میں پلاسٹک پروڈیوسرز اور مینوفیکچررز کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے تاکہ ماحول دوست متبادل پر منتقل ہو سکیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ دریائے سندھ ملک کی لائف لائن ہے جو پلاسٹک کے پھیلائو کے باعث دنیا کا دوسرا آلودہ ترین دریا بن گیا ہے۔ وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کو پلاسٹک کے کم لاگت کے متبادل حل کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں”پلاسٹک سے پاک پاکستان” کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

آئی یو سی این پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر محمود اختر چیمہ نے آخر میں وفاقی وزیر کو ایک سووینئر پیش کیا اور کلائمیٹ ایکشن کے لیے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے موضوع پر ان کے خیالات کو سراہا۔ سیمینار میں سفارت کاروں نے بھی شرکت۔ اس موقع پر مقررین نے پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق مسائل اور ان کے حل کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔