پیرس ۔18فروری (اے پی پی):یوکرین جنگ کے خاتمہ پر امریکا اور روس کے درمیان اعلیٰ سطح پر مذاکرات سے ایک دن قبل فرانس کے شہر پیرس میں یورپی رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، اسپین، نیدرلینڈز اور ڈنمارک کے رہنما ئوں نے شرکت کی ۔ وائس آف امریکا کے مطابق تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں یوکرین سمیت یورپی خطے کی سکیورٹی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا ۔ اس موقع پر یورپی ممالک کے رہنمائوں نے فوری طور پر اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے اور یوکرین کی مدد کرنے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس میں یورپی یونین اور مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کی نمائندگی بھی تھی۔یورپی رہنماؤں کایہ اجلاس ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکا اور روسی حکام کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات ہورہے ہیں جن میں دونو ں ممالک کے عہدیدار یوکرین کے معاملے سمیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ممکنہ ملاقات پر بات چیت کریں گے۔سعودی عرب میں ہونے والی اس ملاقات میں نہ تو یوکرین کو مدعو کیا گیا اور نہ ہی کسی یورپی رہنما کو بلایا گیا ہے۔
پیرس کانفرنس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے صدر ٹرمپ سے فون پر رابطہ کیا تھا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان 20 منٹ تک گفتگو ہوئی تاہم صدر میکرون کے دفتر نے اس گفتگو کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔واضح رہے کہ امریکا یورپ کو طویل عرصے سے کہتا رہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے امریکا پر انحصار کم کرے اور مزید اقدامات کرے۔ روس حالیہ عرصے میں حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین میں پیش قدمی کر چکا ہے جب کہ واشنگٹن نیٹو میں شامل یورپی ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں۔ایسے میں یورپی ممالک اب ہنگامی طور پر دفاعی اخراجات بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
واضح رہے کہ روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی سب سے زیادہ مدد امریکا نے کی ہے۔ پیرس کانفرنس کے دوران نیدرلینڈز کے وزیرِ اعظم ڈک شوف نے تسلیم کیا کہ یورپی ممالک کو ایک متفقہ نتیجے پر آنا چاہیے کہ وہ یوکرین کے معاملے میں اپنا حصہ کس طرح ڈال سکتے ہیں اور یہ وہی طریقہ ہے جس کی بدولت وہ مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں وہ برطانوی فوجی اہلکار یوکرین بھیجنے کے لئے تیار ہیں جب کہ دیگر یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ قبل از وقت ہو گا۔پولینڈ نے اپنی فوج یوکرین بھیجنے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔
ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سینشیز کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ بندی اور امن کے کسی بھی معاہدے میں یورپی یونین اور یوکرین کی شمولیت ضروری ہو گی۔ برطانوی تھنک ٹینک ِکیتھم ہاؤس کے یوکرین فورم کی سربراہ اوریسا لٹسیوچ نے اپنے تبصرہ میں کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس نے یورپ کو امریکا کی نئی ترجیحات کے حوالے سے فکر مند کر دیا ہے۔ میونخ کانفرنس کا مقصد یورپ کو جھنجھوڑنا تھا لیکن یورپ نے یہ سمجھنے میں تاخیر کر دی ہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ایک مختلف انتظامیہ چارج سنبھال چکی ہے۔