اسلام آباد۔23ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا ہے کہ پیغام پاکستان کو مساجد، مدارس، سکولوں، چرچز اور گوردواروں کی سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے،افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کی ریاست جو پالیسی اور طریقہ کار متعین کرے گی وہی ہم سب کا راستہ ہو گا، مذہب کی جبری تبدیلی کا مجوزہ مسودہ آئین وزارت انسانی حقوق کو نظر ثانی کے لئے واپس کر دیا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مذہب کی جبری تبدیلی کو جائز سمجھتے ہیں، کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اپنی مرضی سے اسلام کی طرف آنے والے کو روکا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو یہاں پیغام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امت کو جوڑنے کے حوالہ سے کی جانے والی کوششوں کو احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں نفرتیں پھیلانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر محبتوں کو پھیلانے اور دوریاں ختم کرکے قربتیں بڑھانے والے لوگ ہمارے لئے قابل قدر اور قابل احترام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مسائل اور مشکلات ضرور ہیں مگر میرا ایمان اور اعتقاد ہے کہ علما کے مل بیٹھنے سے خیرو برکت ہوتی ہے اور بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، ان کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ ایک دوسرے کا موقف سنیں اور جو بھی خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں ان کو دور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ علما اور حکمران دونوں طبقات کے درمیان جتنی دوریاں ہوں گی اتنی ہی بدگمانیاں بڑھیں گی اس لئے ان دونوں طبقات کو مل بیٹھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ سے اہل سنت اور اہل تشیع نے قومی اور اجتماعی ضرورت کے وقت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امہات المومنین ؓاور صحابہ کرامؓ کی توہین ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ایسی جسارت کرنے والے سازشیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنا کردار ادا کر رہی ہے، ہماری ریاست کمزور یا بے دست و پا نہیں ہے، ریاست کی جانب سے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اورمزید کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان کو لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، جب تک یہ پیغام مساجد، مدارس، سکولوں، چرچز اور گوردواروں کی سطح تک پورے ملک میں نہیں جائے گا تب تک اس کے ثمرات سامنے نہیں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے کابل کو مسلسل 10، 15 سال سے پاکستان کےخلاف استعمال کیا اور پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ، جو دریائے آمو میں دریا برد ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دینی و ثقافتی ورثہ وسط ایشیا تک پہنچے گا اور اس کے نتیجہ میں ہماری معیشت مستحکم ہو گی۔ وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ افغانستان گذشتہ 40 سالوں سے جنگ زدہ اور تباہ حال ملک ہے ،ہمیں اس صورتحال کے باعث زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کی ریاست جو پالیسی اور طریقہ کار متعین کرے گی وہی ہم سب کا راستہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالہ سے ہمیں ہر قسم کی مبالغہ آرائی سے گریز کرنا ہو گا۔ وزیر مذہبی امور نے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالہ سے دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے گلگت بلتستان، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور آزاد کشمیر میں جبری مذہب کی تبدیلی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، سندھ کے چند اضلاع میں یہ واقعات ہوئے ہیں اس ضمن میں وزارت انسانی حقوق نے بل کا ایک مجوزہ مسودہ ہمیں ارسال کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت مذہبی امور میں علامہ عارف واحدی، مفتی گلزار نعیمی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، حسان حسیب الرحمن اور وزارت مذہبی امور کے ریسرچ ونگ کے اکابرین پر مشتمل اجلاس میں اس کا جائزہ لے کر وزارت انسانی حقوق کو واپس کر دیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورت میں یہ بل انسانی حقوق اور آئین کے مطابق نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہ لیا جائے کہ ہم مذہب کی جبری تبدیلی کو جائز سمجھتے ہیں، اسلامی احکامات کے تحت کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جو اسلام کی طرف آنا چاہے تو اس کو روک لیا جائے ایسے قوانین کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، توقع ہے کہ اس حوالہ سے قیاس آرائیاں ختم ہو جائیں گی۔