19.9 C
Islamabad
ہفتہ, اپریل 19, 2025
ہومقومی خبریںپی این سی اے اور برفی پروڈکشن کے اشتراک سے تین روزِہ...

پی این سی اے اور برفی پروڈکشن کے اشتراک سے تین روزِہ پروگرام داستانِ گوئی اختتام پذیر ہو گیا

- Advertisement -

اسلام آباد۔14اپریل (اے پی پی):پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں پی این سی اے اور برفی پروڈکشن کے اشتراک سے تین روزِہ پروگرام داستانِ گوئی اختتام پذیر ہو گیا ۔آخری روز داستانِ فیض پیش کیا گیا مشہور داستانِ گو بدر زمان نے داستانِ فیض پیش کیا جس کو سننے کے لئے اسلام آباد اور راولپنڈی کی عوام کثیر تعداد میں موجود تھی ۔بدر خان پچھلے دس سال سے داستانِ گوئی کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔بدر خان نے نہایت خوبصورت انداز میں داستانِ فیض پیش کی جسے وہاں موجود لوگوں نے خوب سراہا۔ اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈی جی پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس محمد ایوب جمالی تھے ۔اپنے خطاب میں ڈی جی پی این سی اے کا کہنا تھا کہ اللہ‎ نے سوہنی دھرتی کو باصلاحیت لوگ دئیے ہیں مگر فیض احمد فیض جیسی نابغہ روزگار شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔ جہان فانی سے رخصت ہوئے انہیں کئی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کے افکار، سیاسی و معاشرتی اور مزاحمتی اشعار آج بھی ہمارے ہونٹوں پر بہار دے رہے ہیں۔

بدر خان کا داستانِ فیض کے آغاز میں کہنا تھا کہ فیض صاحب نے 13 فروری 1911ء کو کالا قادر (سیالکوٹ) میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد، سلطان محمد خان، ایک علم پسند شخص تھے۔ وہ پیشے سے ایک وکیل تھے اور امارت افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔ بعد ازاں انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات شائع کی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا، آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور اشتراکی فکر کے ممتاز رہنما تھے۔فیض کے گھر سے کچھ دوری پر ایک حویلی تھی۔ یہاں اکثر پنڈت راج نارائن ارمان مشاعروں کا انعقاد کیا کرتے تھے، جن کی صدارت منشی سراج الدین کیا کرتے تھے ؛ منشی سراج الدین، مہاراجا کشمیر پرتاپ سنگھ کے منشی تھے اور علامہ اقبال کے قریبی دوست بھی۔ انہی محفلوں سے فیض شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔فیض کے گھر کے باہر ایک مسجد تھی جہاں وہ فجر کی نماز ادا کرنے جاتے تو اکثر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا خطبہ سنتے اور ان سے مذہبی تعلیم حاصل کرتے۔

- Advertisement -

1921 ء میں آپ نے سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد آپ نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی میر حسن شمس العلماء (جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ آپ نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔1942 ء میں آپ نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی دوسری جنگ عظیم سے دور رہنے کے لیے آپ نے اپنے لیے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی تھے۔ جنرل خان بائیں بازو کے سیاسی خیالات رکھتے تھے اور اس لیے آپ کو خوب پسند تھے۔ 1943 ء میں فیض میجر اور پھر 1944 ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوئے۔ 1947 ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے۔1947ء میں آپ پاکستان ٹائمز اخبار کے مدیر بنے۔ 1948ء میں آپ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

1948 ء تا 1950 ء آپ نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے وفد کی جنیوا میں سربراہی کی اور دریں اثنا آپ ورلڈ پیس کونسل کے رکن بھی بن گئے۔9 مارچ 1951ء کو فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومت وقت نے گرفتار کر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارے جہاں سے آپ کو 2 اپریل 1955ء کو رہا کر دیا گیا۔ زنداں نامہ کی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لکھی گئیں۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پذیر رہے۔ فیض نے جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہا ’’فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے، اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے‘‘ ۔ فیض صاحب نے اردو ادب کو بہترین کتب سے نوازا۔ فیض احمد فیض کی شاعری کا اولین مجموعہ ”نقش فریادی“ مکتبہ اردو لاہور نے 1941 میں شائع کیا تھا۔ آپ نے 20 نومبر 1984 ء کو زندگی کے ہاتھوں شکست تسلیم کر لی۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=581922

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں