پی اے سی کا گیس ڈویلپمنٹ سرچارج قانون سازی سے متعلق معلومات کی عدم فراہمی پر برہمی کا اظہار، جی آئی ڈی سی فنڈز استعمال بارے ایک ماہ میں تجاویز پیش کرنے کی ہدایت

95
اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کی دنیا بھر میں 114 ملین افراد کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہنگامی امداد کی اپیل

اسلام آباد۔18فروری (اے پی پی):پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی)نے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کے حوالے سے قانون سازی سے متعلق تازہ ترین معلومات کی عدم فراہمی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری قانون کو خط لکھنے کی ہدایت دیدی ہے ، کمیٹی نے وزارت پیٹرولیم کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ماہ میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس ( جی آئی ڈی سی)فنڈز کے استعمال پر تجاویز پیش کرے ۔

منگل کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین پی اے سی جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ کمیٹی کو آڈٹ رپورٹس کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ 30 جون 2023 تک جی آئی ڈی سی کی مد میں 350 ارب روپے اکٹھے کئے گئے۔جی آئی ڈی سی کی رقم پاک ایران گیس پائپ لائن ٹاپی سمیت اہم منصوبوں پر خرچ ہونی تھی۔جی آئی ڈی سی میں سے 3.7 ارب روپے قرض کی ادائیگی پر خرچ کئے گئے، اراکین پی اے سی کا کہنا تھا کہ جی آئی ڈی سی عوام سے لیا گیا،اسی مقصد پر خرچ ہونا چاہیے تھا۔پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے بتایا گیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث رقم پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خرچ نہیں کی جا سکی۔

حنا ربانی کھر نے سوال اٹھایا کہ اگر عالمی پابندیاں تھیں تو عوام سے جی آئی ڈی سی کیوں وصول کیا گیا۔ جی آئی ڈی سی کے 350 ارب روپے متبادل منصوبوں پر خرچ کیے جائیں۔ پی اے سی نے ایک ماہ میں پیٹرولیم ڈویژن سے جی آئی ڈی سی فنڈز کے استعمال پر تجاویز طلب کر لیں۔ سیکرٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی کا قانون 2015 میں لایا گیا۔ 2020 میں سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کو کالعدم قرار دیا۔ پاک ایران پائپ لائن منصوبے پر ایران کے ساتھ تنازعہ کے حل پر کام کر رہے ہیں۔

ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر مصالحت کیلئے رقم جی آئی ڈی سی ہی خرچ کی جا رہی ہے۔ٹاپی پر 1 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ رکھ لیں تو تمام تفصیلات بتا دوں گا۔ پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ مالی سال 23-2022 میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد اور بجلی کمپنیوں سے 33 ارب روپے کم وصولی ہوئی ہے ۔ رکن پی اے سی نوید قمر کا کہنا تھا کہ جی ڈی ایس پر وفاق کا کوئی حق نہیں۔ صوبوں کی رقم کی وصولی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

صوبوں کا حق مار کر کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ ڈی جی گیس نے کہا کہ جی ڈی ایس کی مد میں کم وصولی فرٹیلائزر سیکٹر کو سبسڈی کے باعث ہوئی۔نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ فرٹیلائزر کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں۔ ڈی جی گیس نے بتایا کہ جی ڈی ایس کے حوالے سے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ کمیٹی نے ترمیم کے سٹیٹس کے حوالے سے وزارت قانون کے نمائندے سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ترامیم کس مرحلے میں ہیں ۔ وزارت قانون کے نمائندے نے بتایا کہ میرے پاس فی الحال یہ معلومات نہیں کہ اسوقت ترامیم کس سطح پر ہیں۔پی اے سی نے وزارت قانون کے جواب پر اظہار برہمی کیا۔

پی اے سی نے سیکرٹری قانون کو خط کے ذریعے اظہار ناراضگی کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیکرٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں جائے گا۔نوید قمر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا۔ شازیہ مری نے کہا کہ سی سی آئی کا اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔پی اے سی نے سی سی آئی کا اجلاس طلب کرنے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ۔ کمیٹی نے سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو بھی سی سی آئی اجلاس جلد بلانے کی ہدایت دی ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ 24-2023 کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نارکوٹکس کنٹرول نے مختص بجٹ سے زائد اخراجات کیے۔ سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول نے بتایا کہ اضافی اخراجات تنخواہوں کی مد میں کیے گئے تھے۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 25 سال سے ٹیسٹنگ لیبارٹری قائم نہیں کی جا رہی جو ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے سیکرٹری وزارت نارکوٹکس کنٹرول نے بتایا کہ صوبوں میں لبارٹریاں پہلے سے موجود ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں بھی پی اے آر سی کی لبارٹری موجود ہے۔ رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ اگر لبارٹری کی ضرورت نہیں ہے تو ایکٹ میں ترمیم کریں۔ حکام نے بتایا کہ ایکٹ میں درج ہے کہ کسی بھی لبارٹری کو ڈرگ ٹیسٹنگ لبارٹری قرار دیا جا سکتا ہے۔پی اے سی نے آڈٹ اعتراض نمٹا دیا۔

ایک اور آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1994 سے 2023 تک اے این ایف سندھ نے 579 گاڑیاں ضبط کیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود 12 گاڑیاں نیلام نہیں کی گئیں۔عدالتی حکم کے باوجود 30 گاڑیاں مالکان کو واپس نہیں کی گئیں۔306 گاڑیوں کے کیسز اسوقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اے این ایف حکام نے بتایا کہ کئی مالکان اپنی گاڑیاں لینے نہیں آئے۔ اجلاس میں اے این ایف کراچی کی جانب سے ضبط کی گئی کمرشل اور رہائشی پراپرٹیز استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں گلشن جمال اور کورنگی ٹائون شپ میں چار پراپرٹیز نیلام کرنے کے بجائے اے این ایف کے زیر استعمال ہیں۔پی اے سی نے معاملہ جلد از جلد نمٹانے کی ہدایت کر دی