24.9 C
Islamabad
منگل, ستمبر 2, 2025
ہومبین الاقوامی خبریںپی سی آئی اور شنگھ ہوا یونیورسٹی چین کےاشتراک سے پاک۔چین گرین...

پی سی آئی اور شنگھ ہوا یونیورسٹی چین کےاشتراک سے پاک۔چین گرین ڈویلپمنٹ ڈائیلاگ کا انعقاد، خصوصی اقتصادی زونز کے حوالہ سے پالیسی پیپر کا اجرا

- Advertisement -

بیجنگ۔2ستمبر (اے پی پی):پاکستان۔چائناانسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نےشنگھ ہوا یونیورسٹی کے سکول آف انوائرمنٹ کے تعاون سے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران پاک۔چین گرین ڈویلپمنٹ ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔ ڈائیلاگ کے دوران پی سی آئی نے ’’پالیسی سے عمل تک: سی پیک کے تحت گرین خصوصی اقتصادی زونز کو چین کے ماحولیاتی صنعتی پارکس کے تجربات کے ذریعے عملی شکل دینے ‘‘ کے موضوع پر ایک پالیسی پیپر کا اجرا بھی کیا۔ اس ڈائیلاگ میں پالیسی سازوں، محققین اور صنعت کے ماہرین نے پاکستان میں گرین خصوصی اقتصادی زونز ( ایس ای زیز )کے لیے ایک عملی روڈمیپ بھی ترتیب دیا۔

پی سی آئی کی جانب سے یہاں جاری اعلامیہ کے مطابق تقریب میں وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی کھرل، پروفیسر تیان جن پنگ (سکول آف انوائرمنٹ، شنگھ ہوا یونیورسٹی)، مصطفیٰ حیدر سید (ایگزیکٹو ڈائریکٹر پی سی آئی)، شو تیانکی (ڈائریکٹر ایریا سٹڈیز، چونگ یانگ انسٹیٹیوٹ فار فنانشل سٹڈیز، رینمن یونیورسٹی)، ڈاکٹر عارفہ اقبال (ایڈیشنل سیکریٹری و ای ڈی جی-ٹو، بورڈ آف انویسٹمنٹ)، پروفیسر بی کیجیا (ایسوسی ایٹ پروفیسر، سکول آف بزنس، شیان انٹرنیشنل سٹڈیز یونیورسٹی) اور محمد عمر فاروق (سینئر ریسرچر، پی سی آئی) نے شرکت کی۔

- Advertisement -

پالیسی پیپر مصطفیٰ حیدر سید، محمد عمر فاروق اور پروفیسر تیان جن پنگ نے مرتب کیاہے جس میں چین کے ماحولیاتی صنعتی پارکس (ای آئی پیز) کے تجربات کو سی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور پالیسی پیپر میں معیارات، مشترکہ انفراسٹرکچر، مالیات، آپریشنز اور ڈیٹا پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔مذاکرہ سے اپنے افتتاحی خطاب میں پروفیسر تیان جن پنگ نے کہا کہ آج کا دن پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز میں خیالات کو عملی اقدامات میں بدلنے کے لیے مختص ہے۔ چین کے ماحولیاتی صنعتی پارکس اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ ہم نے واضح معیارات طے کیے، مشترکہ سہولتیں تعمیر کیں اور فیصلوں کو مصدقہ ڈیٹا سے سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب پارکس مشترکہ ٹریٹمنٹ پلانٹس، بھاپ اور ہیٹ ریکوری سسٹمز استعمال کرتے ہیں تو اخراجات کم اور کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

اسی طرح شفاف میٹرز اور سادہ ڈیش بورڈز مینیجرز کو فضلہ شناخت کرنے اور ضمنی مصنوعات کو کمپنیوں کے درمیان ملانے میں مدد دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صلاحیت سازی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مشینری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریٹرز کو ان نظاموں سے استفادہ کا طریقہ آنا چاہیے۔ اپنے افتتاحی کلمات میں مصطفیٰ حیدر سید نے کہا کہ ہمارا فوکس نظریے پر نہیں بلکہ عملی نفاذ پر ہے۔ گرین ایس ای زیز اس وقت کامیاب ہوں گے جب شفاف ترین پیداوار کمپنیوں کے پیداواری اخراجات کم کرے گی۔ اس کا مطلب ہے قابلِ فنانس مشترکہ سہولتیں، چھوٹے و درمیانے درجے کے اداروں کی شمولیت کے لیے سادہ قواعد اور ایسی مراعات جو مصدقہ کارکردگی سے منسلک ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس پیپر میں کئی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے،زون اتھارٹیز کس طرح معیاری معاہدے کر سکتی ہیں، کے پی آئیز شائع کر سکتی ہیں اور ڈیٹا شیئرنگ کو معمول بنا سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی پر بھی اس بات کو ترجیح دیتی ہے کہ منظوری اور سپورٹ کے آلات ساتھ ساتھ چلیں۔ یہ 2025 میں پائلٹس کے لیے ایک حقیقت پسندانہ روڈمیپ ہے جسے سی پیک کے فریم ورک کے اندر وسعت پیدا کی جا سکتی ہے۔اپنےکلیدی خطاب میں وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی کھرل نے کہا کہ ہمیں چین کے ماحولیاتی صنعتی پارکس کے تجربات سے سیکھنا اور انہیں اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ گرین ٹرانزیشن کا مطلب یہ نہیں کہ سب روشنیاں بند کر دی جائیں بلکہ اس کا مطلب بہتر روشنیوں سے استفادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ایک مسابقتی صنعت ہے جو وسائل کے استعمال ، آلودگی میں کمی اور معیاری روزگار بھی پیدا کرے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان پالیسی ہم آہنگی لازمی ہے تاکہ صنعتوں کو ایک واضح روڈ میپ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان سفارشات کی حمایت کریں گے جو توانائی بچائیں، پانی کو ری سائیکل کریں اور فضلے کو محفوظ طریقے سے سنبھالیں۔پالیسی پیپر کا جائزہ پیش کرتے ہوئے محمد عمر فاروق نے کہا کہ چین کا سفر ایک سادہ ترتیب واضح کرتا ہے جس میں پائلٹس سے آغاز، معیارات مرتب کرنا، مشترکہ نظاموں کی فنانسنگ، آپریٹرز کی تربیت اور معیار بلند کرنا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی کیسز جیسے گُی تانگ شوگر کمپلیکس نے بیگاس، حرارت اور باقیات کو کاغذ، سیمنٹ اور توانائی کے لیے خام مال میں بدلا، بعد میں ٹیڈا جیسے پارکس نے انویسبل پائپس‘ کو دوبارہ بنایا جس میں مشترکہ سہولتیں اور ضمنی مصنوعات کے لیے ڈیجیٹل میچ میکنگ شامل تھی۔ 2008 میں سرکلر اکانومی قانون نے پارکس کو قانونی سہارا دیا تاکہ مواد کا تبادلہ کر سکیں اور مشترکہ ٹریٹمنٹ پلانٹس چلا سکیں جبکہ 2015 کے بعد معیارات مزید سخت ہو گئے اور ماحولیاتی صنعتی معیارات، سرکلر تبدیلی اور کم کاربن پروگرام ایک ہی سمت میں آگے بڑھے جس میں پاکستان کے لیے سبق یہ ہے کہ پائلٹ کریں، پیمائش کریں ، کام کو سرٹیفائی کریں اور پھر سادہ، قابلِ تصدیق نمبروں کے ساتھ وسعت دیں۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عارفہ اقبال نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کے ساتھ 300 سے زائد پاکستانی کمپنیاں بھی شراکت داری کے لیے چین آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کے پاس اکثر سرمایہ اور تکنیکی صلاحیت کی کمی ہوتی ہے اس لیے ہم ایسے آلات ڈیزائن کر رہے ہیں جو مسابقت پیدا کریں۔ سرمایہ کاری بورڈ کارکردگی اور آلودگی کنٹرول کے لیے معیاری معاہدے بنائے گا تاکہ کمپنیوں کو معلوم ہو کہ انہیں کیا فراہم کرنا ہے۔ ہم سینسرز اور میٹرز کی اجتماعی خریداری کریں گے تاکہ لاگت کم ہو اور ہم آہنگی یقینی بنائی جا سکے۔ مشترکہ سہولتوں کے لیے وائی ایبلٹی گیپ فنڈنگ اور ایس ایم ایز کی اپ گریڈ یشن کے لیے گرین کریڈٹ لائن بھی دستیاب ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب اقدامات ایک ونڈو ایس ای زیڈ میں شامل ہوں گے جس میں سادہ درخواستیں، واضح ٹائم لائنز اور مربوط تکنیکی معاونت شامل ہوگی۔ فنانسنگ ماڈلز پر بات کرتے ہوئے شو تیانکی نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ26- 2025میں دو سی پیک ایس ای زیڈز کو گرین پائلٹ کے طور پر نامزد کرے اور ایک فنانسنگ کی جامع حکمت عملی بھی مرتب کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی بینک کے کم شرح سود والے قرضے مرکزی مشترکہ انفراسٹرکچر ، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ اور بھاپ کے نیٹ ورکس کی فنانسنگ کر سکتے ہیں۔ صوبائی یا خودمختار ضمانتیں تعمیرات کے خطرات کم کریں گی اور قرض کی لاگت گھٹائیں گی۔

کارکردگی پر مبنی سبسڈیز توانائی، پانی اور اخراجات میں مصدقہ بچت سے منسلک ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ کاربن ریونیو جیسے میتھین ایبٹمنٹ، ہیٹ ریکوری یا کو-پروسیسنگ کی آمدن نقد بہاؤ کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ آپریشنز کے تناظر میں پروفیسر بی کیجیہ نے کہا کہ گرین ایس ای زیز کے لیے ناقابلِ مذاکرات کے پی آئیز میں ضمنی مصنوعات کے تبادلے کی قابلِ پیمائش شرح، فی یونٹ پیداوار پر جی ایچ جی شدت، پارک کی سطح پر پانی کے دوبارہ استعمال کا تناسب اور خطرناک فضلے کا محفوظ پروسیسنگ شامل ہے۔ ان سب اقدامات کو ماہانہ ٹریک کیا جانا چاہیے اور ایک سادہ ڈیش بورڈ پر بھی ظاہر کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آہنگ میٹرز اور مشترکہ ڈیٹا فارمیٹس لازمی ہیں تاکہ ایس ایم ایز بھی شامل ہو سکیں، صرف بڑی کمپنی نہیں۔ مراعات کو مسلسل بہتری پر انعام دینا چاہیے، زیادہ ری یوز پر ٹیرف ریبیٹس اور کے پی آئیز کے مصدقہ فوائد سے منسلک بونس وغیرہ بھی دینے چاہئیں۔ اسی طرح مشترکہ مینٹی ننس سروسز ایس ایم ایز کو اپنے آلات درست رکھنے اور تعمیل میں مدد دے گی اور اہداف کو روزمرہ عمل میں بدلا جا سکے گا۔ شراکت داری پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈین شنگھ ہوا یونیورسٹی لیو شومنگ نے کہا کہ صنعت ایسے حل چاہتی ہے جو قابلِ پیمائش، قابلِ فنانس اور آپریشنز میں قابلِ اعتماد بھی ہوں۔ پارک کی سطح کی سہولتیں اس وقت سستی پڑتی ہیں جب انہیں ایک بار ڈیزائن کیا جائے اور کئی کمپنیاں استعمال کریں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا ڈیٹا جو آسانی سے تصدیق ہو سکے، سرمایہ کاروں اور ریگولیٹرز میں اعتماد پیدا کرتا ہے جبکہ معیارات پارکس کو ایک مشترکہ زبان دیتے ہیں۔ اسی طرح تربیت یہ یقینی بناتی ہے کہ ٹیمیں ان نظاموں کو محفوظ طریقے سے چلا سکیں۔ ہم پاکستان کے لیے بڑے امکانات دیکھتے ہیں کہ وہ ان عناصر کو فوری طور پر فوکسڈ پائلٹس کے ذریعے اپنائے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھ ہوا اس ایجنڈے کے لیے تحقیق اور صلاحیت سازی میں تعاون جاری رکھے گی۔

واضح رہے کہ پالیسی پیپر میں ای آئی پی سے منسلک معیارات کو اپنانے ، مشترکہ سہولتوں کو مرکب سرمایہ سے فنانس کرنے ، ایس ایم ای سپورٹ کو ون ونڈو ایس ای زیڈ میں شامل کرنے اور ضمنی مصنوعات و توانائی کے میل جول کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز متعارف کرانے پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں