اسلام آباد۔8اگست (اے پی پی):اینٹومو لوجیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سی آر آئی) کے چیف سائنسدان ڈاکٹر ارشد مخدوم صابر نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے قدرتی ماحول اور انسانی صحت کیلئے مضر دھان کی فصل کی مخصوص کیڑے مار ادویات کی فروخت، ترسیل اور استعمال پر پابندی سے پاکستان کو خوراک میں کیڑے مار ادویات کے محفوظ معیار پر پورا اترنے میں مدد ملے گی، یہ مستقبل میں یورپی یونین اور امریکا جیسی منڈیوں سے چاول شپمنٹس کی واپسی کے مسئلہ پر قابو پانے کیلئے ایک دانشمندانہ اقدام ہے۔
ڈاکٹر ارشد مخدوم صابر نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے باسمتی اور نان باسمتی چاول کی عالمی شہرت اور معیار کے تحفظ کیلئے 13 مخصوص کیڑے مار ادویات کی فروخت، ترسیل اور استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ممنوعہ کیڑے مار ادویات میں کلورپائریفاس، ایسیفیٹ، بیوپروفیزن، ہیکسا کونازول، میتھل برومائیڈ، کاربینڈازم، کاربوفوران، میتھا میڈوفاس، فاریٹ، ایمیڈاکلوپرڈ، مونوکروٹوفاس اور ٹرائیزوفاس شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیمیکلز ماحول کے شدید نقصان کے ساتھ ساتھ آبی ذخائر کو آلودہ کر رہے تھے اور کاشتکاروں و صارفین کی صحت کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے تھے تاہم اس پابندی سے پاکستان کو خوراک میں کیڑے مار ادویات کے محفوظ معیار پر پورا اترنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین، امریکہ اور جاپان سمیت بڑے چاول درآمد کرنے والے ممالک میں یہ ادویات زہریلے اثرات اور دیرپا ماحولیاتی نقصانات کے باعث پہلے ہی ممنوع یا سخت پابندیوں کے تحت ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کلورپائریفاس اور کاربوفوران انسانی صحت اور شہد کی مکھیوں جیسے جرگ بردار کیڑوں پر مضر اثرات کے سبب 50 سے زائد ممالک میں ممنوع ہیں۔ڈاکٹر صابر نے زور دیا کہ دنیا بھر میں کیڑے مار ادویات کی حفاظت سے متعلق بڑھتی ہوئی آگاہی نے پاکستان کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے معیار کو بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگ کرے تاکہ اس کا چاول برآمدی منڈیوں میں مسابقت برقرار رکھ سکے۔ انہوں نے ممنوعہ کیمیکلز کے متبادل کے طور پر بائیو لوجیکل کنٹرول اور انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ (آئی پی ایم) اپنانے کی سفارش کی جن میں قدرتی دشمن حشرات کا استعمال، فصلوں کی گردش اور بیماریوں کے خلاف مزاحم چاول کی اقسام شامل ہیں۔پاکستانی چاول برآمد کنندگان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں یورپی یونین اور امریکہ جیسی منڈیوں میں چاول کی شپمنٹس کی واپسی کو روکنے کے لیے ایک دانشمندانہ قدم ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے سابق سینئر نائب چیئرمین توفیق احمد خان نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہا کہ پابندی مستقل ہونی چاہیے تاکہ مسائل دوبارہ پیدا نہ ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ برآمد کنندگان کو کسانوں کی جانب سے کیڑے مار ادویات کے غلط استعمال کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے اور پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ و پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ کسانوں کو مستقل بنیادوں پر محفوظ طریقے سے فصل کے تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کریں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران چاول کی برآمدی شپمنٹس کی واپسی کے واقعات میں کمی آئی ہے جو برآمد کنندگان اور پلانٹ پروٹیکشن حکام کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ توفیق احمد خان نے امید ظاہر کی کہ حکومت اور کسان دونوں کی طرف سے ماحول دوست پالیسیوں پر مستقل عمل درآمد سے پاکستانی چاول کی عالمی منڈیوں میں قبولیت اور مسابقت میں مزید اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھان کی فصل پر ماحول دوست کیڑے مار ادویات کے استعمال سے مقامی مارکیٹ میں ایسا چاول دستیاب ہو گا جو انسانی صحت کے لیے مضر نہیں ہو گا۔