چھیاسی فیصد سربراہ خواتین کو منقولہ جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے،سروے

110
شہدائے ہزارہ پولیس سپورٹس کمپیٹیشن 2025 کا پہلا ایڈیشن شروع ہو گیا

پشاور۔ 22 ستمبر (اے پی پی):پی ایچ ڈی سکالر عنبرین بی بی کی جانب سے’’وراثت میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے گھریلو سربراہ کا رویہ ‘‘کے موضوع پر تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 86 فیصد سربراہ خواتین کو منقولہ جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے جبکہ 91 فیصد چاہتے ہیں کہ اگر خواتین کو حصہ مل بھی جائے توان کا خود جائیداد پر کنٹرول نہیں ہونا چاہیے۔

آواز فانڈیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد خواتین اس لیے بھی وراثت میں حصہ نہیں مانگتیں کیونکہ انہیں خاندان کے چھوٹ جانے کا خدشہ ہوتا ہے یا وہ جہیز کو وراثت کا متبادل سمجھتی ہیں۔دیوانی مقدمات کے ماہر محمد عبداللہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وراثت یا میراث، جہیز اور مہر تینوں مختلف چیزیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وراثت یا میراث کسی عورت کو اپنے والدین، بہن بھائی یا شادی کی صورت میں شوہر اور بچوں سے بھی مل سکتی ہے لیکن مورث کا مرنا اور میراث میں کچھ باقی رہ جانا لازمی ہے۔عبداللہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جہیز بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان ہوتا ہے جو ایک روایتی یا ثقافتی عمل ہے جبکہ مہر کسی عورت کو شادی کی صورت میں یا نکاح کے بدل میں شوہر یا سسرال سے ملتا ہے۔