اسلام آباد ۔ 11 ستمبر (اے پی پی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات نے وزارت اطلاعات و نشریات کو ہدایات دی ہیں کہ میڈیا کو صنعت کا درجہ دینے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت جلد مکمل کی جائے، میڈیا کو صنعت کا درجہ ملنے کے بعد ٹیکس ریلیف سمیت ہر سطح پر آسانیاں اور مراعات مل سکیں گی ،دنیا کے کئی ممالک میں میڈیا کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے، کمیٹی نے ایوان میں حذف شدہ سینیٹر نعمان وزیر کے الفاظ کی خبر شائع کرنے پر جنگ میڈیا گروپ کووضاحت پیش کرنے کے لئے آخری مہلت دیدی، پیمرا کو ہدایت دی گئی کہ سیاسی قیادت کی کردار کشی اور فیک نیوز کے حوالے سے اب تک کی گئی کارروائی سے متعلق تفصیلی رپورٹ آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے ۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات اکبر حسین درانی ، پی آئی او شاہیرا شاہد سمیت وزارت اطلاعات ونشریات کے ذیلی اداروں کے حکام بھی موجود تھے ۔ کمیٹی نے میڈیا کو صنعت کا درجہ دینے کے معاملے پر غور کیا ۔ سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات اکبر حسین درانی نے کمیٹی کو بتایا کہ 1992میں میڈیا کو صنعت کا درجہ دیا گیا تھا لیکن اس شعبے سے منسلک افراد کا موقف تھا کہ جن شعبوں میں ریلیف درکار تھا وہ نہیں مل سکا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ میڈیا کو صنعت کا درجہ ملنے کے بعد مالیاتی اداروں سے قرضوں کی فراہمی ،بیرونی سرمایہ کار بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرینگے اور مجموعی طور پر میڈیا کی گروتھ ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی میڈیا کو صنعت کا درجہ دینے کے معاملے پر بات ہوئی لیکن اس پر بات آگے نہیں بڑھی ۔ ممبر کمیٹی صابر شاہ نے کہا کہ اگر میڈیا کو صنعت کا درجہ دینے سے اتنے مواقع ملیں گے تو اس پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی خود اس معاملے پر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے گی اس حوالے سے وزارت اطلاعات کی رائے بھی سنی جائے گی اور اسکے بعد اسے حتمی شکل دی جائے گی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں موٹروے پر خاتون سے ہونے والے زیادتی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ جب تک سزائیں سخت نہیں کی جائیں گی ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں ۔ لوگوں میں ایسے واقعات کے خلاف خوف پیدا کرنا ہوگا۔افسوس کی بات ہے کی زینب الرٹ بل جو کئی ماہ سے منظور ہو چکا ہے اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔قائمہ کمیٹی نے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو متعلقہ خاتون اور ان کے خاندان کی پرائیویسی کا خیال رکھنے کی ہدایات کر دیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ خاتون یا اس کے خاندان کا نام کسی بھی صورت میڈیا پر جاری نہیں ہونا چاہیے۔ایسے واقعات اور خاص طور پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے حوالے سے سرکاری و پرائیویٹ میڈیا بھرپور آگاہی مہم چلائے اور لوگوں کو سزاو¿ں کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر سزائیں سخت کرنے کیلئے ترمیم بھی کی جائے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر نعمان وزیر خٹک کے4 مارچ2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ بارے حذف کیے گئے الفاظ کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چلانے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ پریس کونسل آف پاکستان کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کیے تھے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ قائمہ کمیٹی نے واضح ہدایت دی تھی کہ پریس کونسل ان کے خلاف ایکشن لے کر رپورٹ کمیٹی کو فراہم کرے۔جس پر متعلقہ آفسیر نے کہا کہ وہ اس کمیٹی اجلاس میں نہیں تھے۔آئندہ اجلاس میں آگاہ کر دیاجائے گا۔قائمہ کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں ہیں افسران مکمل تفصیلات کے ساتھ کمیٹی کو بریف کیا کریں اور متعلقہ اخبار کے حکام بھی کمیٹی کے اجلاس میں شریک کیوں نہیں ہوئے۔ یہ وزارت اطلاعات و نشریات کا کام ہے کہ ان کی شرکت یقینی بنائی جاتی۔سیکرٹری وزارت اطلاعات نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے جب معاملے کا جائزہ لیا تھا تو جنگ گروپ کے لوگ موجود تھے۔متعلقہ اخبار نے ابھی تک جواب جمع نہیں کرایا۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کرنا اس میڈیا گروپ کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جو الفاظ حذف کیے جاتے ہیں اس گروپ نے وہ لازمی چلانے ہوتے ہیں۔جو قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ وزارت اور متعلقہ اداروں کو سخت ایکشن لینا ہوگا بہتریہی ہے کہ ان کا لائسنس ختم کیا جائے ، افسوس کی بات ہے کہ ہم پارلیمنٹرین ملک کے چاروں صوبوں سے کمیٹی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور اس میڈیا گروپ کے لوگ کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنا گوار انہیں سمجھتے۔قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی کو ڈیلے مشین استعمال کرنے کی بھی ہدایت کی تاکہ حذف شدہ الفاظ کو نکالاجا سکے۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ جب تک قانون نہیں بنے گا ایسی چیزیں بند نہیں ہوں گی۔قائمہ کمیٹی نے پریس کونسل کو دوبارہ قانون کے مطابق ایکشن لینے کی ہدایت کی اور وزارت اطلاعات ونشریات کو ہدایت کی کہ متعلقہ میڈیا گروپ کی موجودگی یقینی بنائیں۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر رحمان ملک کے 28 اگست2018 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر کی الیکٹرانک میڈیا پر کردار کشی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ہمارے لیڈر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی میڈیاپر کردار کشی کی گئی اور ان کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے جس کی بارہا شکایات بھی درج کرائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب فواد چوہدری وزیراطلاعات تھے انہوں نے رولز کی ایک کاپی بھیجنی تھی وہ بھی ابھی تک نہیں بھیجی گئی۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ آصف علی زرداری کے انتقال کی جھوٹی خبریں تک چلائی گئیں اور ایک داڑھی والے شخص نے کہا کہ ان کو دفنا بھی چکے ہیں۔جس کی میں شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ اس شخص کو بلا کر سابق صدر سے معافی منگوائی جائے۔سیکرٹری اطلاعات ونشریات اکبر حسین درانی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط اور جعلی خبریں بھی چلائی جاتی ہیں جو سائبر کرائم کا معاملہ ہے۔الیکٹرانک میڈیا کا ریگو لیٹر پیمرا ہے ایسے معاملات کو پیمرا دیکھتا ہے۔نیشنل میڈیا پالیسی بن رہی ہے جس میں ان چیزوں کوشامل کیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جعلی خبروں کا بہت سنجیدہ مسئلہ ہے ان کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔پیمرا حکام نے کہا کہ متعلقہ چینل کو وارننگ لیٹر بھی جاری کیا گیا تھا۔89 کیسز کے حوالے سے شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ سینیٹر رحمان ملک کی طرف سے 86 شکایات تھیں ان کا جواب فراہم کر دیا گیا ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر رحمان ملک کے14 جنوری2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پی ٹی وی کے ٹاک شوز میں سیاسی جماعتوں کی مساوی نمائندگی کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی ٹاک شوز میں 60فیصد اپوزیشن اور 40 فیصد حکومتی اراکین کو نمائندگی دی جاتی ہے۔گزشتہ تین ماہ کے لائیو پروگرام انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔قائمہ کمیٹی کو پارلیمنٹ کی کوریج کرنے والے پی ٹی وی ملازمین کو اعزازیہ نہ دینے کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ پی ٹی وی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ قومی اسمبلی کی یقین دہانیوں کی کمیٹی نے معاملہ اٹھایا ہے۔16 ستمبر2020 کو حتمی فہرست کمیٹی کو فراہم کر دی جائے گی۔کمیٹی نے معاملہ تب تک موخر کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کو ای پی ونگ کے کام کے طریقہ کار، فنگشز، بجٹ، ملازمین کی تعداد وغیرہ کے معاملات پر تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کے حوالے سے چھپنے والی خبروں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران18 ہزار پرنٹ اور الیکٹرانک خبروں میں پاکستان کے خلاف 2.8فیصد، پاکستان کے حق میں 26.6 فیصد جبکہ 70 فیصد نیوٹرل خبریں رہیں۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے ای پی ونگ کو ہدایت کی کہ پاکستان کے مثبت امیج ا±جاگر کرنے کیلئے بھر پور اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان میں سیاحت اور قدیم مقامات کی بھر مار ہے۔ دنیا بھر کو آگاہ کر کے پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بیرون ممالک میں پاکستان کے ڈراموں، سیاحت کے مقامات، موسم،دریاو¿ں، پھلوں، ثقافت کے پروگرام سوشل میڈیا پر بھی ا±جاگر کیے جائیں تاکہ لوگوں کو پاکستان کے حالات بارے آگاہی حاصل ہو۔ پی ٹی وی ولڈ کے ڈرامے چلائے جائیں اس حوالے سے ای پی ونگ اپنی مانیٹرنگ کو مزید موثر کرے۔انہوں نے کہا کہ ایک جامع کمپین کی ضرورت ہے جس میں حکومت کی تمام ویب سائٹ سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکیں۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز سجاد حسین طوری، سید محمد صابر شاہ، انجینئر رخسانہ زبیری، روبینہ خالد، عطا الرحمن، رحمان ملک اور نعمان وزیر خٹک کے علاوہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات اکبر درانی، ایم ڈی پی ٹی وی عامر منظور، ڈی جی ای پی ونگ، ڈی جی پیمرا، جی ایم ڈیجٹیل میڈیا ونگ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔