چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی

109
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی

اسلام آباد۔2جنوری (اے پی پی):سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلہ پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔

انہوں نے عدالت سے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلہ کے دوبارہ جائزہ کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ کا موقف کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے۔ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔ دوران سماعت میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکا ہے اس لئے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کو کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟ جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرتی ہو۔ جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں موقف اپنایا کہ تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 پڑھا۔ اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمان بننے کے لئے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت پر آرٹیکل 62 اور 63 کی شرائط دیکھی جاتی ہیں۔

انٹری پوائنٹ پر ہی دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو گناہ گار ہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ عدالت نے اس کا تعین کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا ہے اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں ہے۔

اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا ہے۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کوختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قتل اور ملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں آپ کچھ عرصہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے ڈکلئیریشن از خود اختیار استعمال کر کے دی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک جیسی ہے۔ آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایک شخص کےخلاف کیس ہو تو وہ دو سال سزا کاٹ کر واپس آ سکتا ہے

مگر کسی شخص کے خلاف مقدمہ نہ ہو بلکہ ڈکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ نہیں آ سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر 2002 میں قائداعظم بھی ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کے رو برو موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کرنے کے حق میں ہوں۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 4 جنوری 2024 تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے اپنے حکم نامہ میں کہا کہ 11 جنوری 2024 تک کیس پر سماعت مکمل کر لیں گے۔ اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کریں گے۔ اگر کوئی سینئر وکیل عدالت کی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ تمام وکلاء ویڈیو لنک کے بجائے اسلام آباد میں پیش ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سیّد منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 7 رکنی لارجر بنچ نے منگل کو یہاں تاحیات نا اہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔