چین مجموعی معاشی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے، رپورٹ

168

بیجنگ۔26جون (اے پی پی):چین نے حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی کی ہے اور مجموعی معاشی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔پیر کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق یہ حقیقت ہے کہ چین مجموعی معاشی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے تاہم ،مجموعی معاشی حجم اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا ہے کہ کوئی ملک ترقی یافتہ ہے یا نہیں۔

مشہور برطانوی معاشی شماریات کے ماہر اینگس میڈیسن کے مطابق 1700 سے 1820 تک چین کا جی ڈی پی نہ صرف دنیا میں پہلے نمبر پر رہا بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ 32.9 فیصد کے تناسب تک بھی پہنچا، میڈیسن کے اندازوں کے مطابق چین کی معاشی ترقی کی موجودہ رفتار کے مطابق 2030 ء تک عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ بڑھ کر 23 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جو 200 سال پہلے کے برابر ہو گا ۔

دوسری طرف غیر متوازن صنعتی ترقی، غیر متوازن علاقائی ترقی، شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان آمدنی کے فرق جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ چین کے معاشی لحاظ سے بڑے صوبے زی جیانگ میں بھی دیہی علاقوں کا ماحول قابل اطمینان نہیں تھا،پھر تقریبا چالیس ہزار دیہات میں سے دس ہزار کو جامع اصلاحات کے لئے منتخب کیا گیا ، گزشتہ 20 سالوں میں زی جیانگ نے دیہات میں کچرے کے نظام، سیوریج اور بیت الخلاء کی ضرورت جیسے شعبوں میں انقلابی اقدامات کو فروغ دیا اور حیاتیاتی ماحول کو بہتر بنایا ہے ۔

گزشتہ 20 سالوں میں زے جیانگ کے ان دیہات میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی بہت سے دیہات ایسے ہیں جن میں رہائش ،حیاتیاتی ماحول اور معیشت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بین الاقوامی سطح پر چین ہمیشہ سے ایک ترقی پذیر ملک رہا ہے، طویل عرصے سے چین اور ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد نے قومی آزادی کی تحریک میں شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے اور قومی ترقی کو فروغ دینے کے عمل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ گزشتہ صدی کی 60 کی دہائی میں چین نے اپنی معاشی کمزوری کے باوجود بھی افریقی بھائیوں کے لیے ریلوے کی تعمیر میں مدد فراہم کی۔

چین کی جون چائو ٹیکنالوجی دنیا بھر کے 106 ممالک اور خطوں میں پھیل چکی ہے ۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کا مقصد بھی ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی مشترکہ فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے۔ایسے وقت میں جب دنیا کو یکطرفہ اور بالادستی جیسے خطرات کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک نے حقیقی کثیر الجہتی کی پاسداری اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط پر مبنی بین الاقوامی انتظام و انصرام کی حفاظت کے لئے انصاف کی آواز بلند کرنے کے لئے ہاتھ ملایا ہے۔

ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی سطح پر سامعین کی حیثیت سے اسٹیج کے مرکز میں داخل ہورہے ہیں، پسماندگی سے فعال قیادت کا سفر طے کرنے لگے ہیں جس سے بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت، عالمی کثیر قطبیت اور اقتصادی عالمگیریت کے تاریخی عمل نے مؤثر طریقے سے فروغ پایا ہے۔1964 ء میں اقوام متحدہ کے یو این سی ٹی اے ڈی کے پہلے اجلاس میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے وہ ممالک جنہوں نےدوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی حاصل کی اور آزاد ترقی کے راستے کا انتخاب کیا ،انہیں ترقی پذیر ممالک قرار دیا گیا۔