بیجنگ۔3جولائی (اے پی پی):گزشتہ 70 سے زائد سال میں، چینی عوام کی خوراک "کھانے کے لیے ناکافی ہونے” سے ” کافی ہونے”اور پھر ” غذائیت سے بھرپور ہونے ” تک ایک تاریخی تبدیلی سے گزری ہے، جو عالمی سطح پر بھی ایک نمایاں کامیابی ہے اور اس دوران بہت سے نظریاتی اور عملی تجربات حاصل ہوئے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کا غذائی تحفظ کا قانون یکم جون 2024 سے نافذ العمل ہے جو چین کے غذائی تحفظ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ادارہ جاتی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت عالمی خوراک کی پیداوار بیشتر ممالک کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے لیکن دنیا میں تقریباً 800 ملین افراد اب بھی بھوک کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی متعلقہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تشدد اور تنازعات، قدرتی آفات اور معاشی خطرات دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات ہیں، غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان مسائل کا حل ضروری ہے۔ اس تناظر میں چین نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پیش کیے۔ چینی حکومت نے غذائی تحفظ کے لیے مختلف امدادی منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد بھی کی ہے اور غذائی تحفظ سے متعلق ڈبلیو ٹی او کی اپیل کا جواب دیتے ہوئے عالمی فوڈ سیکیورٹی گورننس میں ایک ذمہ دار بڑے ملک کا کردار ادا کیا ہے۔چین نے طویل عرصے سے مسلسل کوششوں کے ذریعے 1.4 افراد سے زائد لوگوں کو کامیابی کے ساتھ خوراک فراہم کی ہے جو عالمی غذائی تحفظ کے لیے ایک مثبت خدمت ہے۔ یونیسکو نے خبردار کیا ہے کہ 2050 تک دنیا کی 90 فیصد زرعی زمین ناکارہ ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری ایک رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں سوڈان، مالی اور غزہ سمیت 21 ممالک اور خطوں میں غذائی عدم تحفظ مزید بڑھ جائے گا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک اور رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک خطے کو بھی غذائی تحفظ کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جہاں 370 ملین سے زیادہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ خطہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ جنوبی ایشیا میں غذائی قلت کی شرح 15.6 فیصد ہے جو سب سے بلند ہے۔ رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ غذائی تحفظ کو زرعی زمین کی تنزلی کے ساتھ ساتھ پرتشدد تنازعات جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔