چین کے ساتھ بھرپور روابط کے ذریعے سی پیک کے پہلے مرحلے کےثمرات حاصل کر کے دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا چین کے نشریاتی ادارہ ”سی جی ٹی این” کو انٹرویو

133
Caretaker Prime Minister
Caretaker Prime Minister

اسلام آباد۔24جنوری (اے پی پی):نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ بھرپور روابط کے ذریعے سی پیک کے پہلے مرحلے کےثمرات حاصل کر کے دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں۔بی آر آئی کے پہلے مرحلہ کے مقاصد سی پیک کی صورت میں حاصل کر لئے ہیں۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، چین کے ساتھ شراکت داری پر مبنی تعلقات استوار ہیں، سی پیک سے خطے میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے، معاشی ترقی کیلئے خطے کے ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

دورہ ڈیووس کے دوران چین کے نشریاتی ادارہ ”سی جی ٹی این” کو دیئے گئے ا یک انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صنعتی میدان میں ترقی سے معاشی استحکام آئے گا۔ نگران کابینہ کی معیشت کی بہتری کیلئے ترجیحات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ایجنڈے پر اقتصادی بحالی سب سے پہلے ہے، ٹیکنالوجی کی تبدیلی زیر بحث ہے، یہ دو بڑے عوامل دنیا بھر میں ہر قسم کی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کر رہے ہیں، خاص طور پر ہمارے خطے میں مختلف تنازعات اور فلیش پوائنٹس کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے جبکہ سپلائی چین اور مجموعی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کئے جانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوتی ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دستیاب مواقع سے بہترین فائدہ اٹھانے کے حوالے سے ماحول کو دیکھتا ہے، ہم اس وقت درپیش چیلنجز اور ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کے مرحلہ میں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملکی سطح پر جب حکومت کا حجم اتنا بڑا نہیں ہے تو ہمیں اخراجات کم اور آمدن بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے،مختصر حکومت ہمیشہ کاروبار، زیادہ آمدن کے حصول، اچھے ٹیکسیشن نظام اور بنیادی ڈھانچہ کی اصلاحات کیلئے اچھی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو معاشی بحالی کے ملکی اقتصادی ایجنڈے میں سب سے اولین ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ جس انداز میں چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں بی آر آئی منصوبہ چل رہا ہے، پاکستان نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے اس پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین سے صنعتوں کی جنوب مشرقی ایشیائی، جنوبی ایشیائی، جنوبی امریکہ اور دنیا کے بہت سے حصوں میں منتقلی ہو رہی ہے، پاکستان کو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنے آپ کو ایک فعال اقتصادی ملک اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں تبدیل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ پورے خطے کیلئے ایک مرکز بن سکتا ہے، اگر ہم خطے میں درست پالیسیاں لاتے ہیں جس میں توانائی اور اس کی قیمت اور اس سے منسلک ایکو سسٹم شامل ہیں، ہمیں مسابقتی انداز میں کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی، انہیں بجلی کے مسابقتی نرخ فراہم کرنا ہوں گے، اگر ہم مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں تو ہم کاروبار کو سبسڈی نہیں دے سکتے، ہم انہیں پیداواری لاگت کیلئے خطے میں زیادہ مسابقتی نرخ فراہم نہیں کر سکتے،ہمیں اس شعبہ میں اپنی پالیسی کو معقول بنانے اور مارکیٹ ریٹ کی سطح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں صنعت زیادہ مسابقتی بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سستی افرادی قوت اور درست مہارت دستیاب ہے لہٰذا ایک بار جب ہم صحیح توانائی کی پالیسی متعارف کرائیں گے تو ہم کافی حد تک اس پوزیشن میں ہوں گے کہ خطے میں مینوفیکچرنگ کا مرکز بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی صحیح پالیسی یہ ہے کہ آپ جو فی یونٹ بجلی دیتے ہیں وہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا کے ساتھ مسابقت میں ہو اور یہ کم و بیش 8 سینٹ سے کم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم خصوصی اقتصادی زونز پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، ہم وہ تمام پالیسیاں لا رہے ہیں جہاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں حکومت کی طرف سے سہولت ہو۔۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو( بی آر آئی )کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماحولیات کے حوالےسے پائیدار اقدامات کے تحت بہت سے مواقع ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور اس کی عالمی ذمہ داری شفاف توانائی کی پیداوار جو آبادی کے بہترین استعمال کیلئے ہو، یہ ایک ایسا شعبہ ہو گا جہاں جدت کی حامل نئی ٹیکنالوجیز آئیں گی اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو گی جس میں یقینی طور پر چین اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسی سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پاکستان اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے، انھو ں نے کہا کہ جب چین ترقی کرتا ہے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے۔چینی ماڈل کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اقتصادی مداخلت پر یقین رکھتا ہے، سب کی جیت پر یقین رکھتا ہے، باہمی ہم آہنگی اور تعاون پر یقین رکھتا ہے، ایسے رویے سے تخلیقی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں، نئے حل پر مبنی لائحہ عمل بنتے ہیں اور انسانی سفر مزید آگے بڑھتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رابطے میں رہنا ہی بنیادی اصول ہے، لوگ مختلف قسم کے جوابات سننے کو تیار ہیں، ان کی تلاش اور تحقیق کر رہے ہیں، چینی نکتہ نظر زیادہ قابل عمل، تعمیری اور زیادہ شمولیت کا حامل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ شمال اور جنوب کے درمیان تقسیم کے سلسلہ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف افراد اور قوموں کیلئے کچھ اقتصادی فائدے ہیں اور دوسری طرف افراد اور قوموں کیلئے کچھ نقصانات بھی ہیں تو اس خلاء کو کیسے پُر کیا جا سکتا ہے؟ نئی ٹیکنالوجیز یا تو سماجی نظام کو فعال بنا رہی ہیں یا اس اکھاڑ پچھاڑ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل سپیس اور الیکٹرانک سپیس سے شروع ہو کر مصنوعی ذہانت کی طرف ایک ایسا سفر ہے جو اتنی تیزی سے طے ہوا ہے کہ جنوب یا شمال کی بہت سی قیادتوں کیلئے ان میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کے مضمرات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا یہ تبدیلیاں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بن سکتی ہیں؟ کیا یہ شناخت یا امارت اور غربت کی بنیاد پر مزید تنازعات کو جنم دیں گی؟ اور کیا اس قسم کا احساس محرومی تنازعات کا باعث بن سکتا ہے؟ یہ تمام وہ چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمال اور جنوب کے درمیان بقائے باہمی کیلئے مزید مکالمے اور کھلے دل اور ذہن کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مکالمے اور مباحثوں تک رسائی کو بڑھایا جانا چاہئے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شامل کیا جانا چاہئے، عوامی سطح پر ایسا مباحثہ اور گفتگو کی ضرورت ہے، اس مباحثہ میں معیاری معلومات فراہم کی جائیں، وہ معیاری معلومات ان تمام بیانیوں کے اردگرد عمارت کھڑی کر سکتی ہیں جس کی ضرورت ہے تاکہ دونوں طرف کے لوگ اخلاقی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے انتخاب کر سکیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں درست بیانیہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے، صحیح اور معیاری معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، اگر آپ ایسا نہیں کرتے، آپ اس بیانیہ کیلئے مسخ شدہ یا غلط معلومات پر انحصار کرتے ہیں اور حقیقت سے عاری بیانیہ بناتے ہیں تو ایسی صورت میں اس بیان کردہ ہدف کے حصول کیلئے کی جانے والی کاوش ہمیشہ ایک ناقابل حصول مقصد کی خاطر ہو رہی ہو گی اس لئے بہتر ہے کہ پہلے مرحلہ وار اس کی مناسب طریقے سے منصوبہ بندی کی جائے، ایک بیانیہ لایا جائے تو باعلم مباحثے اور معیاری معلومات پر مبنی ہو، جب ایسا ہو جائے تو عملدرآمد کا حصہ اور اسے نافذ کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نےبی آر آئی کے پہلے مرحلہ کے مقاصد حاصل کر لئے ہیں جو کہ سی پیک کا پہلا مرحلہ ہے اور اب ہم سب اس کے ابتدائی ثمرات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہم اب دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں، دوسرے مرحلہ میں ہمیں مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے، تجارت اور صنعتکاری کے مواقع کیلئے روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے، وہ بڑے ایونٹ جن کی ہم توقع کر رہے ہیں آنے والی دہائی کی ایک بڑی کامیابی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسے عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہمیں اچھی طرح بات چیت اور غوروخوض کی ضرورت ہے، ہم نے روابط کے بہت سے ذرائع، شاہراہیں، فضائی رابطے اور دیگر راہداریاں بنائی ہیں، ہم اس پورے ماحول سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرکے فائدہ اٹھا رہے ہیں، دیگر علاقائی طاقتیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم چینی معیشت کے حوالے سے ہمیشہ پراعتماد رہتے ہیں، اس کی منطق یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب صارفین اور کام کرنے والے لوگوں کی وجہ سے باقی دنیا چین سے منسلک ہے، وہ ایشیاء کی پیداوار اور دنیا کو برآمد کر رہے ہیں، ڈیڑھ ارب کی آبادی کے ملک کو باقی دنیا کی آبادی سے جڑا رہنا ہے، چین کے پاس بہترین انسانی وسائل ہیں، ان کی معیشت ایک خاص سطح تک پہنچ چکی ہے، ان کے پاس درست ذرائع مالیات میسر ہیں، ایک بہت بڑی منڈی کی وجہ سے دنیا چین میں دلچسپی رکھتی ہے اور چین کی بھی دنیا میں دلچسپی ہے، اس وجہ سے معیشت ترقی کر رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی سرگرمیاں پاکستان سمیت مختلف سیاسی نظاموں کا آئینی تقاضا ہیں، پاکستان میں ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہم عوام کیلئے اپنی پسند کے انتخاب کے اس مرحلہ پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں جو اپنی منتخب حکومت اور قیادت کا انتخاب اس امید کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں کہ اقتصادی بحالی کا منصوبہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور اقتصادی بحالی کا منصوبہ پاکستان اور دنیا بھر میں ان کے اہم ترین ایجنڈے میں شامل ہو گا۔