ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیرصدارت اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس

103
Dr. Qibla Ayaz
Dr. Qibla Ayaz

اسلام آباد۔31جنوری (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل کا 235واں اجلاس بدھ کو یہاں چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیرصدارت ہوا جس میں متعدد امور زیرغور آئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے بعض علاقوں میں کچھ عناصر کی طرف سے مسلح اقدامات کو علماء کرام اور دینی مدارس کے تمام بورڈز کے متفقہ فتوے/اعلامیے (پیغام پاکستان) کی خلاف ورزی قرار دیا اور اپنی 2018 کی ان سفارشات کا اعادہ کیا کہ مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے امید ظاہر کی کہ عام انتخابات کے بعد بننے والی پارلیمنٹ پیغام پاکستان کے فتوے اور اعلامیے کو پارلیمانی تائید دلائے گی اور اس کے بارے میں موثر قانون سازی کے لیے اقدامات کرے گی۔

اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے احتجاج کے شرعی طریقے سے متعلق صدر مملکت کے ریفرنس کے حوالےسے ایک تفصیلی ضابطہ اخلاق کی منظوری دی جس کے مطابق اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اپنی حدود مملکت میں قرآن وسنت کا نظام نافذ کرے، کاروبار مملکت اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلائے، اپنے شہریوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کا تحفظ یقینی بنائے ،ان کے جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے، ان کے مقدسات اور مذہبی شعائر کو تحفظ فراہم کرے، انسان کی بنیادی ضروریات (روٹی،کپڑا اور مکان) کی عزت اور سہولت کے ساتھ سستے داموں فراہمی کو یقینی بنائے، ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی صرف کر کے عوام کے جائز مطالبات پورے کرے، ان کےمسائل حل کرے اور شکایات کا ازالہ کرے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے جو شرعی مفاسد اور خرابیوں سے پاک ہو، جو احتجاج بذات خود کسی دوسرے غیرشرعی کام اور حرام امور پر مشتمل ہو وہ جائز نہیں، مثلاً دوران احتجاج لوگوں کی جانوں کوضائع کرنا ، لوگوں کو تکلیف واذیت پہنچانا، نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، زبردستی لوگوں کو اپنے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور کرنا، گالم گلوچ کرنا، الزام اور بہتان تراشی، جھوٹ، غلط خبریں اور افواہیں پھیلانا وغیرہ، یہ سب امور ناجائز ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ احتجاج کےلیے سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو ضائع کرنا یا ان کو نقصان پہنچانا غیر شرعی ہے، سرکاری املاک چونکہ کسی شخص کی ذاتی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہیں،اس لیے یہ ایک ایسی چیز کا نقصان ہے جس سے بہت سے لوگوں کے حقوق وابستہ ہیں اس لیے ایسے اقدام کی قباحت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگراحتجاج کے دوران کسی شخص کی ملکیت کو نقصان پہنچے تو اس کی تلافی کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر نقصان پہنچانے والا شخص یاگروہ معلوم ہوتو ایسی صورت میں اس نقصان کا تاوان انہی پر لازم ہے اور اگروہ معلوم نہ ہو تو حکومت وقت کی ذمہ دار ی ہےکہ وہ حتی الامکان اس نقصان کی تلافی سرکاری خزانے سے کرے کیونکہ عوام کی جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاطت حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ احتجاج کے دوران کسی شخص (خواہ وہ سرکاری ملازم ہویاکوئی اور ہو) کو مارنایا نقصان پہنچانا ہرگز جائز نہیں اور غیر شرعی ہے۔ ایک مسلمان کی جان، مال اور عزت و آبرو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے معزز گھر خانہ کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔اس لیے احتجاج کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خاص اہتمام کریں اور شرکاء کو تلقین کریں کہ وہ پرتشدد کار روائیوں اور دہشت گردی سے مکمل اجتناب کریں اورکسی شخص کی جان کو کسی قسم کا نقصان ہرگزنہ پہنچائیں۔ اگر احتجا ج کےشرکاء منتظمین کے اختیار اور کنٹرول سے باہر ہوں اور ان کے لیے احتجاج کو پرامن رکھنا ممکن نہ ہوتو ایسے احتجاج کا انعقاد ہرگزنہ کریں۔

مزید برآں کونسل نے فیض آباد دھرنا کمیشن کے سوالات کے جواب میں قرار دیا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینا نہایت حساس معاملہ ہے، اس پر سخت ترین نتائج مرتب ہوتے ہیں، اس لیے اس میں جلد بازی سے کام لینا ہرگز درست نہیں۔ اسی طرح کسی شخص کے قول اور فعل کی وجہ سے اسے کافر قرار دینا نہایت ہی احتیاط کا متقاضی ہے، اس لیے اس کا اختیار ہر کس وناکس کو دیناشرعی تعلیمات کی خلاف ورزی اور حکمت ومصلحت کے اصولوں کے منافی ہے۔ آئىن و قانون كے مطابق قائم رىاست جہاں باقاعدہ قانون ساز ادارے موجود ہوں اور ایك باقاعدہ عدالتى نظام كام كر رہا ہو، مىں یہ فیصلہ كرنا عدالت كا كام ہے، كہ وہ كسى متعىن فرد پر اس كے اقوال و افعال كى بنیاد پر مكمل تفتیش و تحقیق اور شرعى ثبوت كے بعد كوئى حكم لگا كر سزا جارى كرے۔