اسلام آباد۔6مارچ (اے پی پی):سپریم کورٹ نے ڈاکٹر مہرین بلوچ بچیا ں بازیابی کیس کی سماعت کے موقع پر بازیاب کرائی گئی بچیوں کو ان کی والدہ ڈاکٹر مہرین بلوچ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔
پیر کو یہاں عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ کیس میں بچوں کے حقوق کا قانون واضح کرنا ہے،۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بچیوں کو 6 سال تک اغوا رکھ کر غلط کیا گیا ہے، بچیوں کو 6 سال تک غائب رکھنا وڈیرا نظام میں ہوتا ہےقانون کی بالادستی رکھنے والے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے اس موقع پر استفسار کیا کہ اب تک کیس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟ سندھ پولیس کے ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر مہرین بلوچ کی دو بچیوں کے اغوا ء میں والد سمیت 13 افراد نے اعانت کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بچیوں کے والد نے جے آئی کے خاتمہ اور میرے خلاف بھی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے دوران سماعت ریماکس دیئے کہ ڈی آئی جی نے بچیوں کی بازیابی میں تمام کارروائی عدالتی حکم پر کی ہے۔ ڈی آئی جی کے خلاف دائر درخواستیں فوری طور پر واپس لی جائیں۔ علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے اس موقع پر عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ والد بچیوں کا حقیقی سرپرست ہوتا ہے اس کے خلاف کارروائی نہ کی جائے جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کرد صاحب آپ بہت جوشیلے ہیں تھوڑا جوش بچیوں کے بنیادی حقوق کے لئے بھی دکھائیں۔
انہوں نے کہا کہ بچیوں کو والد سے فون پر بات کرنے اور ملنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے اس موقع بچیوں کی ماہر نفسیات سے کونسلنگ جاری رکھنے جبکہ خفیہ ایجنسیوں کو بچیوں کے اغوا میں ملوث کرداروں کو سامنے لانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت رمضان کے بعد تک کیلئے ملتوی کر دی ۔