اسلام آباد۔15ستمبر (اے پی پی):سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ڈس انفارمیشن سے پارلیمنٹ کا تقدس مجروح ہوتا ہے، پارلیمانی رپورٹرز اپنی رپورٹنگ کے ذریعےسوشل میڈیا کی ڈس انفارمیشن کا دفاع کر سکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ارکان ٹیلی فون کرکے کہتے ہیں کہ ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں بغیر تصدیق کئے کوئی استعفی منظور نہیں کروں گا ۔ جمعرات کو پارلیمنٹری رپورٹر ز ایسوسی ایشن کو دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ لازم و ملزوم ہیں ۔ میڈیا عوام اور پارلیمان کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے ۔
شعبہ صحافت جتنا فعال ہوگا ا تنا ہی منفی رجحان کم ہو گا ۔ بغیر تصدیق کے خبریں چلانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اچھے اور بہتر فیصلے حقائق پر مبنی انفارمیشن سے ہی کئے جا سکتے ہیں ۔ صحافی ہی عوام اور پارلیمان کے درمیان فاصلے کم کر سکتے ہیں ۔ یوم آزادی کی 75 سالہ تقریبات کے موقع پر عام آدمی ، اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے کھولے ۔ ایک خواجہ سرا نے بھی پارلیمنٹ میں آکر تقریر کی ، ہماری اس کوشش کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی سے تکرار پر یقین نہیں رکھتا مگر پارلیمنٹ ہماری عزت ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔
کینیڈا میں سی پی اے کانفرنس کے حوالے سے غیر مصدقہ خبریں چلا کر سنسنی پھیلائی گئی ۔ یہ ہمارے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے اور حقیقی صحافیوں کی بھی حق تلفی ہے ۔ اس وقت ہر آدمی کے پاس غیر مصدقہ خبر اور ڈس انفارمیشن ہے ۔ ان حالات میں درست خبر عوام تک پہنچانا ہی ملک کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ پارلیمنٹ کوئی کام کرے اور اس کی نفی کر دی جائے تو یہ بہت غلط بات ہے ۔
یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جس کا مقابلہ حقیقی رپورٹرز ہی کر سکتے ہیں ۔ ہم نے کینیڈا حکومت سے طلباء کے ویزوں اور فیملی کو مسترد کرنے پر بات کی ۔ ہم نے وہاں عالمی برادری کو پاکستان میں تباہ کاریوں سے بھی آگاہ کیا ہے ۔ اگر ڈس انفارمیشن کا سد باب نہ کیا گیا تو یہ ملک کے لئے تباہ کن ہوگا ۔ پارلیمنٹ کی عزت و توقیر کا تحفظ یقینی بنانے میں پارلیمانی رپورٹرز تعاون کریں ۔
ہم سے اگر غلطی ہوتی ہے تو ہمیں بتائیں ہم اس کو درست کریں گے ۔ آئی پی یو کی جنرل اسمبلی کے روانڈا میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے لئے ہم نے خصوصی ایجنڈے کے تحت آئی پی یو کے صدر سے زیر غور لانے کی بات کی ہے ۔ اس فورم پر 178 ممالک ہونگے ۔ ہم وہ فورم نہیں چھوڑ سکتے ۔
کینیڈا میں کانفرنس میں بھارت کا 100 رکنی وفد تھا مگر وہاں صرف 4 پارلیمینٹیرین تھے ۔ ہماری ذات پر کوئی بات آجائے تو کوئی بات نہیں ۔ ہر ادارہ پارلیمنٹ سے نکلتا ہے اس لئے ہمیں پارلیمنٹ کی عزت توقیر کا دفاع کرنا ہوگا ۔ ہم اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے آگے بڑھیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ استعفے قبول کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا پی ٹی آئی کے استعفے سائیکلو سٹائل پر تھے ۔
مجھے لوگوں کی کالز موصول ہوئیں کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں انہوں نے ایسا کیا ۔ ایک رکن تو ہائی کورٹ میں بھی چلا گیا ۔ ارکان مجھے فون کرکے خود کہ رہے ہیں کہ ان کا استعفی منظور نہ کیا جائے ۔ ہم نے ارکان کو تصدیق کے لئے بلایا مگر ان کو میرے پاس آنے سے بھی روک دیا گیا ۔