کراچی۔10اپریل (اے پی پی):ماہرین نے پاکستان میں کاربن نیوٹرل صنعتی ترقی کے لئے سرکاری اور نجی شراکت داریوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کاربن ٹیکسیشن میکانزم سے کاربن شدت والی صنعتوں پر ٹیکسوں اور لیویز میں اضافے کا بوجھ پڑے گا۔ کراچی میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی ورکشاپ میں ماہرین نے کہا کہ پاکستان کو اپنے صنعتی شعبے میں کاربن نیوٹرل کی سمت میں پیش رفت کیلئے عوامی و نجی شراکت داریوں کو فروغ دینا ہوگا۔
ورکشاپ کا انعقاد پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی ( ایس ڈی پی آئی ) نے ڈنمارک کے سفارت خانہ اور اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے اشتراک سے کیا۔پاکستان میں ڈنمارک کے سفیر جیکب لنولف نےکہا کہ پاکستان اپنی وسیع شمسی، ہوا اور بایوماس کی صلاحیت کے ساتھ اپنے توانائی کے مرکب کو مکمل طور پر تجدیدی ذرائع میں تبدیل کرسکتاہے کیونکہ ڈنمارک نے پچھلے پچاس برسوں میں ایسا ہی کیا ہے۔
انہوں نے ڈنمارک کی جانب سے پاکستان میں صاف توانائی کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور توانائی کی بچت کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر آمادگی کا بھی اعادہ کیا۔ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 1.5 بلین ڈالر کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی کے تحت مذاکرات کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں کاربن لیوی، جو ممکنہ طور پر ایندھن یا بجلی کی قیمتوں میں شامل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان کے پاس اندرونی میکانزم نہ ہوں تو زیادہ کاربن پیداکرنے والے شعبوں کے برآمد کنندگان کو یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم ( سی بی اے ایم ) کے تحت کاربن ٹارِفز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا توانائی کا شعبہ پہلے ہی یورپی یونین کے اوسط سے 1.44 گنا زیادہ کاربن والا ہے اور اب کاربن کی قیمتوں کے لئے تیار ہونا ضروری ہو چکا ہے۔
اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل ایم عبدالعلیم نے نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کاربن مارکیٹس ایک انقلابی موقع ہے تاکہ ماحولیاتی اہداف کو اقتصادی مراعات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ایم عبدالعلیم نے او آئی سی سی آئی کی تیاری پر بھی زور دیا ۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلوڈاکٹر خالد ولید نے کاربن کریڈٹ کی اعلیٰ معیار کی پیداوار کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ماحول دوست مالیات کو فعال کیا جا سکے۔ انہوں نے ڈیلٹا بلیو کاربن جیسے منصوبوں کا ذکر کیا جو قدرتی آفسٹس کے لیے منگروو جنگلات کو بڑھا سکتے ہیں اور پاکستان کے لئے بے شمار امکانات پیش کرتے ہیں۔
بی اے ایس ایف اور او آئی سی سی آئی پاکستان کے نمائندے اینڈریو بیلی نے کہا کہ کاربن مارکیٹس صرف تجارت کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری پیدا وار، استعمال اورزمین کی حفاظت کرنے کے طریقے کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ نجی شعبے کو اس تبدیلی کے لیے ایک محرک کے طور پر قدم اٹھانا چاہئے۔ ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمان ضیانے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم ) اور کاربن لیویز کے تناظر میں پالیسی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی محدود مالی گنجائش کے پیش نظر نجی شعبے کو اس مکالمے میں فعال طور پر شامل کرنا ضروری ہے تاکہ اقتصادی نقصانات سے بچا جا سکے اور ہماری سپلائی چینز کو عالمی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی کی کاربن مارکیٹ اسپیشلسٹ ثنا رسول،نے شرکاءکو اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج ( یو این ایف سی سی سی ) سے منظور شدہ کاربن کریڈٹ کی ترقی کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر عرفان یوسف نے پاکستان کی کاربن مارکیٹ کے فریم ورک میں نجی شعبے کی شرکت بڑھانے کے لئے ایک تکنیکی روڈ میپ فراہم کیا۔ جان پال، کلین کموڈٹیز ایکسچینج، اور صالحہ قریشی نے بھی عالمی بہترین طریقوں، کاربن-منفی ٹیکنالوجیز میں جدت اور رضاکارانہ بمقابلہ تعمیل کاربن مارکیٹس میں رجحانات پر بصیرت فراہم کی۔ ایس ڈی پی آئی کی زینب نعیم نے کاربن کریڈٹس کے اقتصادی اصولوں کی وضاحت کی اور ان کی حیثیت اور جوابدہی پر زور دیا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=580383