کاراباخ میں خوجالی نسل کشی انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہے، مسلم انسٹیٹیوٹ اور آذربائیجان کے سفارت خانہ کے زیر اہتمام سیمینار میں مقررین کا اظہار خیال

131
Muslim Institute
Muslim Institute

اسلام آباد۔26فروری (اے پی پی):مسلم انسٹیٹیوٹ اور آذربائیجان سفارت خانہ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں نسل کشی ، قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرم کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد ہوا۔ پیر کو ہونے والے سیمینار کا انعقاد آذربائیجان میں خوجالی نسل کشی کے 32 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ مقررین میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹرمشاہد حسین سید، سینیٹر ولید اقبال، دیوان آف جوناگڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، ترکیہ کے سفیر ڈاکٹرمہمت پکاسی، آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف، میجر جنرل (ر) خالد عامر جعفری اور دیگر شامل تھے۔

مقررین نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینا کے درمیان کاراباخ کا تنازع بیسویں صدی کا ایک خونی تنازع تھا، 1948 سے 1953 تک آرمینا کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ آذربائیجانی لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ اسی طرح 1988 میں اڑھائی لاکھ آذربائیجانی لوگوں کو ملک بدر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خوجالی نسل کشی بیسویں صدی کا اندوہناک واقعہ ہے جو آرمینیا کی جابرانہ اور مجرمانہ پالیسی کا نتیجہ تھا، یہ نسل کشی انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ فروری 1992 میں آرمینیا کی فوجوں نے کاراباخ میں آذری آبادکاری کے علاقہ کا محاصرہ کیا اور تین روز تک آذربائیجانی مسلمانوں کی نسل کشی کی۔

اس دوران 106 خواتین اور 83 بچوں سمیت 613 بے گناہ آذربائیجانیوں کا قتل عام ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 476 افراد مستقل طور پر معذور ہو گئے۔ مجموعی طور پر 1275 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق قتل عام کا نشانہ بننے والے متعدد افراد جن میں خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ آرمینیا کے قبضے اور نسل کشی کے باوجود آذربائیجان کے عوام پرعزم رہے اور 2020 آرمینیا کی جارحیت کے نتیجے میں دوبارہ جنگ شروع ہوئی اور چالیس روزہ تناعہ کے بعد آرمینیا کو اپنی شکست قبول کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ خوجالی نسل کشی کو دنیا کے کئی ممالک تسلیم کرچکے ہیں جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ انہوں نے خوجالی نسل کشی کے مظلوموں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا اور کہا کہ انصاف قائم کرنے سے خطے میں دیرپا امن اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔

مقررین نے کہا کہ شہداء کو یاد رکھنے سے قوموں میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ظالم کے بیانیے کو چیلنج کرنے کی بھی ضرورت ہے، ورنہ فلسطین ،کشمیر، میانمار اور دیگر خطوں میں ہونے والے مظالم کو روکنا ممکن نہیں۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان ، ترکیہ اور آذربائیجان برادر اسلامی ممالک ہیں جو جذبہ اسلامی کے تحت ایک دوسرے سے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، تینوں ممالک کے درمیان اعتماد پر مبنی تعلقات قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ آذری بھائیوں کے اصولی موقف کی بغیر کسی مفاد کے غیر مشروط حمایت کی ہے، اسی لئے کاراباخ پر آرمینیا کے ناجائز اور غیرقانونی قبضے کے باعث ہونے والی جنگ میں پاکستان نے آذربائیجان کی بھرپور اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے اور آج تک آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا یہ موقف دراصل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکر کے عین مطابق ہے۔ ہمیں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کر کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عسکری ، تعلیمی ، تجارت سمیت دیگر شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔