اسلام آباد۔29مئی (اے پی پی):کامسیٹس نے ایم آرآئی سمیت جدید طبی تشخیصی سہولیات دیہی علاقوں تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے مختلف جدید شعبوں بشمول اے آئی ، الیکٹرک گاڑیوں (EVs)، نینو ٹیکنالوجی، جینیاتی تحقیق، سمارٹ ایگریکلچر اور دیگر موضوعات پر تربیتی پروگرام اور ورکشاپس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے اس حوالہ سے کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی برائے پائیدار ترقی برائے جنوب اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
کانفرنس کا موضوع "جدید میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (ایم آر آئی )اور مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر مبنی اطلاق” تھا، اس کا مقصد ایم آر آئی ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اس میں ہونے والی نئی ترقیات پر روشنی ڈالنا تھا۔ یہ کانفرنس اقوامِ متحدہ کے صحت و تندرستی کے مقصد (ایس ڈی جی3 ) کے تحت منعقد کی گئی۔افتتاحی خطاب میں کامسیٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سفیر ڈاکٹر محمد نفیس زکریا نے کہا کہ ایم آر آئی جدید طبی تشخیص کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سہولت ہر جگہ میسر نہیں،شہری علاقوں میں ایم آر آئی کی سہولیات تو موجود ہیں مگر دیہی علاقوں میں یہ بہت کم دستیاب ہیں، اس کی بڑی وجہ اس کا مہنگا ہونا، بنیادی سہولیات کی کمی اور تربیت یافتہ عملے کی قلت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کامسیٹس اس مسئلہ کے حل کے لئے پرعزم ہے اور عوامی فلاح کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال چاہتا ہے۔ کامسیٹس مختلف جدید شعبوں جیسے کہ اے آئی ، الیکٹرک گاڑیاں (EVs)، نینو ٹیکنالوجی، جینیاتی تحقیق، سمارٹ ایگریکلچر اور دیگر موضوعات پر تربیتی پروگرام اور ورکشاپس کا انعقاد کرے گا۔کامسیٹس یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ساجد قمر نے کہا کہ ایم آر آئی ایک مؤثر اور طاقتور ٹیکنالوجی بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی کی مدد سے اب ایم آر آئی زیادہ تیز، واضح اور مریض کی حالت کے مطابق نتائج دینے کے قابل ہو گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صحت کے شعبے میں ترقی کے لئے مختلف میدانوں کے ماہرین کو مل کر کام کرنا ہو گا۔کانفرنس میں مختلف اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی جن میں ایم آر آئی کے بنیادی اصول، اے آئی کی مدد سے ہونے والی نئی پیشرفت، ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ کا کردار اور دماغی صحت و نیورو امیجنگ میں ایم آر آئی کے استعمال شامل تھے۔
اس کانفرنس میں پاکستان سمیت آسٹریلیا، مصر، گیمبیا، اردن، کینیا، ملائشیا، سعودی عرب، ترکیہ، امریکہ اور دیگر ممالک سے 150 سے زائد شرکاء نے شرکت کی جبکہ بعض شرکاء نے آن لائن جبکہ کچھ نے ذاتی طور پر شرکت کی۔پاکستان، سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 9 ماہرین نے اپنی تحقیق اور تجربات پیش کئے۔ آخر میں ایک سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد ہوا جس میں تمام ماہرین اور شرکاء نے اتفاق کیا کہ ایم آر آئی ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔