کراچی۔3جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق نے کہا ہے کہ کراچی میں آئی ٹی پارک کے قیام کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے کراچی ایئرپورٹ کے قریب 31 ارب روپے کی مالیت کی زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا گیا ہے جہاں بہت کم نرخوں پر پلاٹ دستیاب ہوں گے تاکہ آئی ٹی سروسز سے وابستہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو آئی ٹی پارک میں اپنے کاروبار قائم کرنے کی ترغیب دی جاسکے جو جدید ترین انفرااسٹرکچر اور آئی ٹی سے متعلق تمام سہولیات سے لیس ہوگا۔آئی ٹی پارک کا سنگ بنیاد رواں ماہ رکھا جائے گا اور بزنس مین گروپ اور کراچی چیمبر کی قیادت کو خصوصی طور پر تقریب میں مدعو کیا جائے گا۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی انجم نثار، جاوید بلوانی، جنرل سیکریٹری اے کیو خلیل، صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، نائب صدر قاضی زاہد حسین، سابق صدور مجید عزیز، شمیم احمد فرپو، آغا شہاب احمد خان اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر آئی ٹی امین الحق کے ساتھ وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل علی سبزواری اور رکن قومی اسمبلی خالد مقبول صدیقی بھی موجود تھے۔
وزیر آئی ٹی نے بتایا کہ اگرچہ وہ دسمبر 2022 کے مہینے میں 5 جی ٹیکنالوجی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اسے تین ماہ کے لیے بڑھا کر مارچ 2023 تک کر دیا گیا ہے جسے ابتدائی طور پر پاکستان کے بڑے شہروں میں لانچ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کی برآمدات کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں اور آئندہ 5 سالوں میں آئی ٹی کی برآمدات کے لیے 15 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ہم آئی ٹی کی برآمدات کو ٹیکسٹائل کی برآمدات کے برابر لانا چاہتے ہیں اور ٹیکسٹائل کی برآمدات کو پیچھے چھوڑنے اور آئی ٹی کی برآمدات کو پاکستان کی صف اول کی برآمدات بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے وزارت کا چارج سنبھالا تو آئی ٹی کی برآمدات 1 ارب ڈالر سے کم تھیں جو 2019-20 میں بہتر ہو کر 1.4 ارب ڈالر ہو گئیں اور 2020-21 میں 2.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ توقع ہے کہ اس سال آئی ٹی کی برآمدات مزید بڑھیں گی اور یہ 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ان کی وزارت نے ملک بھر میں کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کے لیے 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمارا لائحہ عمل صرف کراچی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہم نے جامشورو، دادو، لاڑکانہ، بدین اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے منصوبے شروع کیے ہیں۔
وزیر اعظم کے اقدامات کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو درپیش شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے وزیراعظم سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر کے کان کھنچنے کو کہا جس پر وزیراعظم نے اتفاق کیا۔وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل علی سبزواری نے کراچی کی تاجر برادری کو درپیش مسائل کے حل میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ میرا موبائل نمبر تاجر برادری کے نمائندوں کے پاس موجود ہے اس لیے میرے دفتر مجھ تک رسائی کے لئے کسی اور سے رابطہ کرنے کے بجائے براہ راست مجھ سے رابطہ کریں کیونکہ میں صرف ایک کال کے فاصلے پر ہوں چونکہ میری وزارت کا 95 فیصد کام کراچی میں ہوتا ہے، میں ہفتے میں پانچ دن یہاں اور صرف ایک دن اسلام آباد میں گزارتا ہوں۔
انہوں نے شپنگ لائنز کے لیے ریگولیٹری فریم ورک رکھنے کی صدر کے سی سی آئی کی تجویز کی حمایت کی لیکن اس مقصد کے لیے مجوزہ ریگولیٹری باڈی تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول تاجر برادری کے اراکین اور شپنگ لائنز کے نمائندوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم کے سی سی آئی کے نمائندے کو پی کیو اے بورڈ میں شامل کرنے کے امکان پر بھی غور کریں گے جہاں بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کا ایک نمائندہ پہلے سے موجود ہے۔ اس موقع پر خالد مقبول نے تاجر برادری پر زور دیا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی شہر کے حقوق کے لیے بھرپور آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات مردم شماری مکمل ہونے پر ہوں گے۔ایم کیو ایم نے کراچی اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریری معاہدے کیے۔ چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے اپنے ریمارکس میں اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو صنعتوں کے لیے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے علاوہ ایک مؤثر پالیسی کے ساتھ آنا ہوگا جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، برآمدات میں اضافہ ہو اور درآمدات کے متبادل کو فروغ ملے کیونکہ یہ صنعتیں ہی ہیں جو روزگار فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
انہوں نے کاروباری لاگت میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی کہ قومی اسمبلی کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی جائے اور اسے پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت کا جائزہ لینے اور اس کا مطالعہ کرنے کا کام سونپا جائے اور اس کا موازنہ بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ اور سری لنکا میں کاروبار کرنے کی لاگت سے کیا جائے کیونکہ اگر ہماری کاروبار کرنے کی لاگت یکساں ہے تو ہم برآمد کنندگان کم برآمدات کے قصوروارہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حکومت کو کاروباری لاگت کو ہمارے حریفوں کے برابر لانا چاہیے جو کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ تاجر و صنعتی برادری کو سازگار کاروباری مواقع فراہم نہ کیے گئے تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ہمیں صرف وہ بنیادی سہولیات چاہیے جو دنیا کے دیگر ممالک میں شہریوں کو دستیاب ہیں۔
چیئرمین بی ایم جی نے زور دیا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتظامات کرے اور صنعتوں کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ بین الاقوامی برادری کی ضرورت کے مطابق اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔حکومت کو صنعتکاری کے ساتھ ساتھ برآمدات کو فروغ دینے پر توجہ دینی ہوگی اور صنعتوں کو درپیش زیر التوا مسائل کو بھی اولین ترجیح پر حل کرنا ہوگا کیونکہ یہی صنعتیں روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہیں اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
زبیر موتی والا نے وزیر آئی ٹی کو بھی مشورہ دیا کہ وہ ایسا پروگرام لے کر آئیں جس میں گھر سے کام کرنے والے افراد کو لیپ ٹاپ اور بزنس پلان کے ساتھ سولر پینل فراہم کیے جاسکیں تاکہ وہ بے روزگار ہونے کی مایوسی سے نکل کر خود انحصار بن سکیں۔ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں میں موجود لائبریریوں کو بھی ورچوئل یونیورسٹیوں میں تبدیل کیا جائے اور دستیاب جگہ کو آئی ٹی سیکشنز میں تبدیل کیا جائے جہاں ہمارے نوجوانوں کو آئی ٹی سے متعلق جدید ترین تربیت دی جائے جس سے اگلے پانچ سالوں کے لیے آئی ٹی برآمدی اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کراچی چیمبر، وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مضبوط رابطہ اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ کراچی کے کچھ سنگین مسائل جو عرصہ دراز سے زیر التوا ہیں حل ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی اور کراچی کی تاجر برادری کو درپیش متعدد مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پر آنا ہوگا۔صدر کے سی سی آئی نے وزیر بحری امورکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ شپنگ لائنز بہت زیادہ مسائل پیدا کر رہی ہیں اور تاجروں سے زیادہ قیمت وصول کر رہی ہیں اس لیے جلد از جلد ایک خود مختار ریگولیٹری باڈی تشکیل دی جائے تاکہ تمام شپنگ لائنوں کی لوٹ مار اورمن مانیوں کو ختم کیا جا سکے۔
جیسا کہ کے سی سی آئی کے نمائندے کو کے پی ٹی بورڈ میں بطور ٹرسٹی ایک سلاٹ دیا جاتا ہے اسی طرح کی نمائندگی پورٹ قاسم اتھارٹی کے بورڈ میں بھی دی جائے تاکہ تاجر برادری کے پی کیو اے حکام کے ساتھ معاملات میں درپیش مسائل کو بھی خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔ بلیو اکانومی کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی چیمبر، پاکستان نیوی اور میری ٹائم افیئرز کی وزارت بلیو اکانومی میں دستیاب وسیع مواقع کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے وزیر بحری امور سے پورٹ قاسم کے قریب واقع ٹیکسٹائل سٹی کو کراچی چیمبر کے حوالے کرنے کی بھی درخواست کی تاکہ کے سی سی آئی اس کا انفرااسٹرکچر بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کر سکے اور صنعتی پلاٹ حقیقی صنعت کاروں کو لیز پر دیا جا سکے۔انہوں نے وزارت آئی ٹی پر زور دیا کہ وہ کے سی سی آئی کو تمام آئی ٹی ڈیولپمنٹ پراجیکٹس میں شامل کرے جبکہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آئی ٹی پارک کو جلد از جلدقائم کیا جائے۔آئی ٹی برآمدات کے لیے 15 ارب ڈالر کا ہدف قابل عمل ہے لیکن حکومت کو مطلوبہ سہولیات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ یہ ہدف بغیر کسی رکاوٹ کے حاصل کیا جا سکے۔