کشمیراور فلسطین کےمسائل طویل عرصہ سےحل نہ ہونےکی وجہ ویٹو پاور ہے،پاکستانی مندوب منیراکرم کاجنرل اسمبلی میں مباحثے کےدوران اظہارخیال

167
Munir Akram
Munir Akram

نیویارک۔27اپریل (اے پی پی):پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے حوالہ سے اس کے پانچ مستقل ارکان کو حاصل ویٹو پاور کو اہم ترین ایشو قرار دیتے ہوئے فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے طویل عرصہ سے حل نہ ہونے کی وجہ اسی ویٹو پاور کو قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے ایک مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پانچ مستقل ارکان کی تزویراتی مخاصمتوں اور ویٹو کے استعمال نے سلامتی کونسل کو مفلوج کر دیا ہے۔

سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ویٹو کے استعمال کا جواز پیش کرنے کے مطالبے پر مبنی تاریخی قرار داد کی پہلی سالگرہ کے موقع پر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہاکہ سلامتی کونسل کو زیادہ موثر بنانے کے لئے اس کے پانچ مستقل ارکان کوحاصل حق استرداد کو کونسل میں اصلاحات کا حصہ بنایا جائے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ کونسل کے مستقل ارکان کو حاصل ویٹو پاور کی وجہ سے ہی کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات کو حل نہیں کیا جا سکا کیونکہ کونسل میں ویٹو نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کو روکا اور اس میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ویٹو کے مسئلے کو حتمی طور پر حل کرنا ہو گا اور اسے الگ سے نہیں بلکہ سلامتی کونسل کی اصلاحات کے لازمی جزو کے طور پر حل کر نا ہوگا۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی کی طرف سے اتفاق رائے سے منظور کی گئی قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ سلامتی کونسل کے کسی بھی رکن کی طرف سے ویٹو کے استعمال کی صورت میں جنرل اسمبلی 10 یوم کے اندر اپنا اجلاس منعقد کرے ۔اس کا مقصد ان ممالک کو ویٹو پاورکے استعمال کے لیے جوابدہ بنانا ہے، جو انہیں کونسل کی کسی بھی قرارداد یا فیصلے کومسترد کرنے کا حق دیتا ہے۔

یہ حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے 70 سال قبل ان ممالک نے اقوام متحدہ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔سلامتی کونسل کے ان پانچوں مستقل ارکان نے کسی نہ کسی وقت ویٹو کا حق استعمال کیا ہے اور صرف گزشتہ 23 سال کے دوران یعنی 2000 سے اب تک 44 بار ویٹو کا حق استعمال کیا گیا۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ تجربے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مستقل ارکان کے ویٹو کے حق کے غلط استعمال پر پابندی یا اسے ختم کرنا سلامتی کونسل کی اصلاحات کا ایک لازمی حصہ ہونا چاہیے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان یونائیٹنگ فار کنسن سس گروپ کے ساتھ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور توسیع کے عمل میں اس کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید مستقل ارکان اور زیادہ ویٹو اختیارات سلامتی کونسل کے مفلوج اور غیر فعال ہونے کے امکانات کو بڑھا دیں گے۔ واضح رہے کہ بھارت ، برازیل، جرمنی اور جاپان پر مشتمل گروپ آف فور کی طرف سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے مطالبے کی وجہ سے سلامتی کونسل کی تنظیم نو کی طرف پیش رفت ر کی ہوئی ہے جبکہ اٹلی اور پاکستان کی قیادت میں اتحاد برائے اتفاق ( یو ایف سی )نامی گروپ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کر رہا ہے اور انہوں نے کونسل کے ارکان کی ایک نئی کیٹگری بنانے کی تجویز دی ہے۔

پاکستانی مندوب نے تجویز دی کہ ایک طرف، ویٹو کے استعمال پر پابندیاں لگا کر، اور دوسری طرف، غیر مستقل ارکان کے کردار کو وسیع تر اور بڑھا کر کونسل کو ’’متوازن‘‘بنایا جا سکتا ہے تاہم ویٹو کو محدود یا محدود کرنے کا کوئی بھی اقدام چارٹر کے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آئی جی این (بین الحکومتی مذاکرات) کا عمل کونسل کی اصلاحات پر متفقہ نتیجے تک پہنچنے کے لیے بہترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

اس موقع پر جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروسی نے کہا کہ ویٹو کے استعمال کا مسئلہ پوری اقوام متحدہ کو متاثر کرتا ہے اور ان ہالز میں کئے گئے فیصلوں کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویٹو کو ہمیشہ آخری حربہ کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ویٹو پاور پر یہ پہلی بار باضابطہ بحث منعقد کی جا رہی ہے۔

انہوں نے سفیروں پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے سخت سوالات پوچھیں اور نئے حل تلاش کریں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سلامتی کونسل کے اراکین متحد ہو کر قابل عمل حل اوراپنے مفادات سے بالاتر ہو کر پوری دنیا میں امن کے لیے ذمہ داری سے کام کر سکتے ہیں۔

جنرل اسمبلی کے صدر نے کہا کہ وہ اس مباحثے کے ریکارڈ اور مستقبل کے تمام مباحث کا ریکارڈ سلامتی کونسل کے صدر کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہوں نے کہ یہ ہمارے لئے ملٹی لیٹرل ازم اور تعاون کے نئے راستے تلاش کرنے کا موقع ہے اور یہ ہمارے لئے اقوام متحدہ کے ادارے کے اندر اور اس پر اعتماد بڑھانے اور دنیا بھر میں آباد 8 ارب انسانوں کے لئے کچھ بہتر کرنے کا موقع ہے جو اس ادارے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔