اسلام آباد۔15اگست (اے پی پی):بھارت جس نے منگل کو اپنا یوم آزادی منایا کے موقع پر دنیا بھر کے کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی اور جبری قبضے، حق خود ارادیت سے انکار اور متنازعہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے مذموم اقدام کی مذمت کرتے ہوئے یوم سیاہ منایا،بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر مظفرآباد، میرپور، کوٹلی، بھمبر، راولاکوٹ، باغ، پلندری، وادی نیلم، وادی جہلم حویلی دیگر قصبوں اور دیہات سمیت آزاد خطہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر بھارت مخالف احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے لیے سول سوسائٹی کے مختلف طبقات ،سماجی ، سیاسی اور دیگر عوامی تنظیموں کے افراد نے ہاتھوں میں سیاہ پرچم اٹھا کر اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ریلیوں میں شرکت کی۔مظاہرین نے کشمیریوں کے آزادی اظہار، نقل و حرکت اور مواصلات کے حقوق سلب کرنے کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تقریباً دس لاکھ فوجیوں کو تعینات کرکے دنیا کے سب سے بڑے فوجی علاقے میں تبدیل کرنے کے بھارتی جبر کی مذمت کی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنا یوم آزادی منانے کا کوئی حق نہیں جس نے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف علاقہ پر قبضہ کر رکھا ہے ، ان رہنماؤں نے کہا کہ بھارت اپنی آزادی پر خوشی منا رہا ہے لیکن اسی مطالبے پر کشمیریوں کو قتل کر رہا ہے۔ حریت رہنماؤں نے کہا کہ شرم کی بات ہے کہ بھارتی مسلح افواج نے گزشتہ 76 برسوں میں 500,000 سے زائد کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کیا جوپھر بھی اس علاقہ میں اپنا یوم آزادی بے شرمی سے منا رہی ہے ،انہوں نے مزید کہا کہ نئی دہلی آج انگریزوں سے اپنی آزادی کا جشن منا رہی ہے، لیکن مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو اس سے انکار کر رہی ہے۔ بھارت نے اپنے یوم آزادی پر مقبوضہ کشمیر کے ہر علاقہ میں اپنے فوجیوں، نیم فوجی دستوں اور پولیس اہلکاروں کوتعینات کیا جس سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑاکشمیر میں بھارت کے یوم آزادی کی تقریبات کے ہموار انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے جاسوس ہیلی کاپٹر اور ڈرون کی نگرانی پر مشتمل کثیر سطحی سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے ۔
بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کی مدد سے ایلیٹ اسپیشل آپریشنل گروپ کے اہلکاروں نے سٹی سینٹر لال چوک اور بخشی اسٹیڈیم کے ارد گرد علاقے پر تسلط کی مشقیں کیں، جو وادی میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب کا مقام ہے۔ فوجیوں نے گاڑیوں اور راہگیروں کی تلاشی لی۔ جبکہ مختلف علاقوں میں پھر سے علاقوں میں پوسٹر زآویزاں کئے گئے جن میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف جموں اور مقبوضہ کشمیر پر زبردستی حملہ کیا ہے۔ میرپور میں مقیم کشمیریوں نے ایک ریلی نکالی اور متفقہ طور پر قرارداد منظور کی جس میں بھارت کو خبردار کیا گیا کہ وہ پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہے۔
ریلی نے اعلان کیا کہ "آزاد جموں و کشمیر کا ہر فرد مادر وطن کے چپہ چپہ کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے – اگر بھارت نے پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر کے خلاف کوئی حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج کے ساتھ شانہ بشانہ وطن عزیز کا دفاع کریں گے ،ریلی کے شرکاء نے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت پر پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ شرکاء نے گزشتہ 10 دنوں سے بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں غیر معینہ مدت کے کرفیو سے متاثرہ لوگوں کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت نےمقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل اور گیریژن میں تبدیل کر دیا ہے۔
انہوں نے ایک اور قرارداد کے ذریعے عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازعہ جموں و کشمیر ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے فوری طور پر حرکت میں آئے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے جلد پرامن حل کے لیے اقدامات کیے جائیں عالمی ادارے پر زور دیا گیا کہ وہ تاریخ کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور جارحیت کا فوری نوٹس لے اور مقبوضہ جموں کشمیر کی متنازعہ ریاست کی خصوصی حیثیت کے جبری خاتمہ کے اقدام کے خلاف اس پر دبائو ڈالے۔ ریلی نے عالمی ادارے – یو این او، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل، ریڈ کراس، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر ریاست بالعموم اور شورش زدہ وادی کے مسلم اکثریتی علاقے میں بالخصوص خوراک اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ کرفیو میں گھروں میں نظر بند لوگوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔اپنے بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو AJK چیپٹر کے سربراہ منیر حسین چوہدری نے کہاکہ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا تاکہ کشمیر پر بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جا سکے۔ اس علامتی احتجاج کا مقصد کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور بھارتی ریاست کی طرف سے ان کے حق خودارادیت سے انکار کی طرف دنیا کی توجہ دلانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ایک طرف ہندوستان نے خطے میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے اپنی فوج کو جھونک دیا ہے تو دوسری طرف قابض حکام ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ کشمیر کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 19 جولائی 1947ء کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک اجلاس ممتاز کشمیری رہنما مرحوم سردار محمد ابراہیم خان (بعد ازاں آزاد جموں کشمیر کے بانی صدر) کی رہائش گاہ پرہوا جس کی صدارت بزرگ رہنما چوہدری نثار علی خان نے کی کیونکہ ، سپریم لیڈر قائد ملت چوہدری غلام عباس کو ہری سنگھ نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف عوام کی مرضی کے خلاف آواز اٹھانے پر جیل سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد 59 دلیر اور متحرک رہنماؤں کی موجودگی میں پیش کی گئی۔ اللہ اکبر اور پاکستان زندہ بادکے نعروں کی گونج کے ساتھ قرارداد کو فوری طور پر منظور کر لیا گیا اس موقع پر کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی نعرے لگائےقرارداد میں کشمیریوں نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار ان الفاظ کے ساتھ کیا ’’ہم انہیں (عظیم قائد) کو سلام پیش کرتے ہیں اور انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے پرمسرت موقع پر ہمارے دلوں کو بے پناہ خوشی اور روح کو تسکین ہوئی ہے، ہندو ڈوگرہ حکمران کو سخت انتباہ دیتے ہوئے، ریاست کے بہادر لوگوں نے، جن میں 85 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی تھی، ہری سنگھ سے کہا کہ وہ 14 اگست 1947 سے پہلے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں اگر عوام کی اس مقبول آواز کے ساتھ بدسلوکی کی گئی تو پھر وہ تباہ کن انجام کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ آخر کار بھارت نے ایک بھیانک کارروائی کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز حملے کا سہارا لیا۔ اس ناجائز اور بے جا بھارتی اقدام کو ناکام بنانے کے لیے ریاست کے بہادر عوام ظالم ڈوگرہ حکومت کے خلاف ایک مضبوط چٹان کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے نتیجہ میں کشمیر کو ناجائز بھارتی قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے آزاد جموں و کشمیر میں یک بیس کیمپ قائم ہوا۔ کئی دہائیوں سے جموں و کشمیر کے لوگ جنوبی ایشیا کے خطے کو تباہ کن خطرے سے بچانے کے لیے اپنے پیدائشی حق خودارادیت کے لیے بھارت سے کشمیریوں کی تسلیم شدہ خواہشات کے سامنے جھکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیری بھارت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہمالیائی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ چھوڑ دےجسے بھارت تقریباً دس لاکھ فوجی طاقت کی تعیناتی کے ساتھ بھاری اسلحہ کے زور پرپر غلامی میں رکھے ہوئے ہے۔
کشمیریوں کی یہ جدوجہد آزادی گزشتہ چھ دہائیوں سے بلا روک ٹوک جاری ہے۔ تاہم گزشتہ 33 سالوں سے آزادی کی تحریک اس وقت زور پکڑ چکی ہے جب ہندوستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے لوگوں نے طویل ہندوستانی تسلط کے خلاف اپنی مقامی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کے ذریعے خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعدکشمیر کے لوگوں کو خدشہ تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے علاقے کی آبادیاتی پوزیشن بدل جائے گی ، یہ منصوبہ جنیوا کنونشن کی سراسر خلاف ورزی میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔