اسلام آباد۔30جون (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداورنگزیب نے کہاہے کہ کلی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے، حکومتی اقدامات سے عالمی برادری اوربین الاقوامی اداروں کااعتماد بحال ہوا، معاشی استحکام کوتسلسل کی طرف لیکرجائیں گے، 42 ہزار ری ٹیلرز کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جن پرجولائی سے ٹیکسوں کااطلاق ہوگا، نان فائلرز کے اختراع کوختم کریں گے ، ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگی کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں، ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں لائیں گے تومسائل جاری رہیں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ نئے اورطویل پروگرام پرمثبت اوردرست سمت میں پیش رفت ہورہی ہے۔
اتوار کویہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اہم اقتصادی اشاریوں کے ساتھ پاکستان کامالی سال اختتام پذیرہورہاہے ، کلی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے ، مالی خسارہ اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں کمی آئی ہے، پاکستان کی کرنسی مستحکم ہے، مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے 38 فیصدسے کم ہوکر 12فیصد کی سطح پرآگئی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ کلی معیشت کے استحکام کاتسلسل ضروری ہے،پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری پرحاصل منافع کی منتقلی میں رکاوٹیں بھی دورکردی گئی ہے اوراس حوالہ سے مئی کے آخر تک بیک لاگ کو کورکرلیاگیاہے اورلیٹرآف کریڈٹس کے حوالہ سے مسائل بھی حل کردئیے گئے ہی، یہ سب معیشت کے استحکام سے ممکن ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومتی اقدامات سے عالمی برادری اوربین الاقوامی اداروں کااعتماد بحال ہواہے، عالمی بینک نے داسوڈیم کےلئے ایک ارب ڈالر کی منظوری دیدی ہے، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے نے پی ٹی سی ایل کیلے 400 ملین ڈالر معاونت کااعلان کیاہے اوریہ ہمیں مالی سال 25-2024 میں ملیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 9.3ٹریلین وصولیوں کی صورت میں محصولات میں 30 فیصد کااضافہ ممکن کردکھایا، ہم نے اس معاشی استحکام کوتسلسل کی طرف لے جانا ہے اوراس کیلئے رہنما اصول طے کرلئے گئے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوارکے تناسب سے آئندہ تین برسوں میں ٹیکسوں کے تناسب کو 13 فیصد کردیا جائیگا، مالی سال 25-2024 کیلئے یہ ہدف 10.5 فیصدرکھاگیاہے توانائی بشمول پٹرولیم کے شعبہ میں اصلاحات کاسلسلہ جاری رہے گا،سرکاری ملکیتی کاروباری اداروں کا خسارہ ایک ٹریلین روپے کے قریب ہے جوبہت زیادہ ہے، ان اداروں میں اصلاحات اورنجکاری کاعمل آگے بڑھائیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ محصولات اورمعیشت میں لیکجز، کرپشن اورچوری کوختم کریں گے اور اس حوالہ سے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کاعمل جاری ہے جس کامقصد کارکردگی میں بہتری اور شفافیت کو فروغ دینا ہے، ڈیجیٹلائزیشن سے انسانی مداخلت کم سے کم ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلاٹزیشن سے شفافیت آئیگی کیونکہ اس وقت صرف سیلزٹیکس میں 750 ارب کی لیکجز موجود ہے اوریہ ڈیجیٹلائزیشن سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ٹیکس کے نظام کوسادہ اورشفاف بنانا ہمارابنیادی مقصد ہے، ٹیکس اورریٹرن پر ہم نے چیمبرز سے بھی بات چیت کی ہے، اورچیمبرز کی جانب سے تجاویز بھی آئی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ استثنائی رجیمز کوختم کرنا ضروری ہے، اس وقت 3ٹریلین روپے کی رجیمز ہیں جن کوبتدریج ختم کیا جارہاہے، اس کے ساتھ ساتھ اضافی شعبوں کوٹیکس کے دائرہ کارمیں لانا ہے ، مفتاح اسماعیل نے ری ٹیلرز کے حوالہ سے 2022 میں جوقدم اٹھایا تھا اس حوالہ سے پیش رفت ہونی چاہئیے تھی ، اگر اس وقت ری ٹیلرز کوٹیکس نیٹ میں لایا جاتا تو صورتحال بہتر ہوجاتی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ تاجردوست سکیم کے تحت 42 ہزار ری ٹیلرز کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جن پرجولائی سے ٹیکسوں کااطلاق ہوگا، رئیل اسٹیٹ میں پہلے طلب کی سائیڈ پرٹیکس لاگو تھا اوراب سپلائی سائیڈ کوٹیکس نیٹ میں لایاگیاہے ،،نان فائلرز کی اختراع کوختم کرنا ہے، نان فائلز کے حوالہ سے بجٹ میں تادیبی اقدامات کئے گئے ہیں، میں بڑا واضح ہوں کہ جلد یابدیر یہ اختراع ختم ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومتی اخراجات اور مصارف کو معقول بنایا جارہاہے، وزرا تنخواہ نہیں لے رہے اور ہم اپنے یوٹیلیٹی بلز بھی خود اداکررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں کٹوتی کی گئی ہے اور اس کامقصد یہ ہے کہ پبلک پرائیویٹ شراکت داری کا حصہ زیادہ سے زیادہ کیا جائے، پی ایس ڈی پی میں وہ منصوبے لائیں گے جو اقتصادی طورپرممکن ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پنشن اصلاحات کے حوالہ سے ای سی سی نے اہم قدم اٹھایاہے،سول ملازمین پراس کااطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوگا جبکہ ملازمت کی علیحدہ سٹرکچر ہونے کی وجہ سے مسلح افواج پراس کااطلاق آئندہ مالی سال سے ہوگا، ان اصلاحات کے حوالہ سے حکومت بہت واضح ہے اوراس عمل کوآگے لیکر جائیں گے، وزارتوں کوضم، منتقل یابند کرنے کے حوالہ سے اقدامات بھی جاری رہیں گے اوراس میں زیادہ وقت نہیں لیں گے، جلد ہی وزیراعظم اس حوالہ سے قوم کو اعتماد میں لیں گے، پی ڈبلیوڈی کے حوالہ سے فیصلہ کیا گیاہے۔
ملازمین کے حوالہ سے فیصلہ کیاگیاہے کہ ان کو کو رنگ فینس دیا جائیگا۔ علاوہ ازیں قانونی اموراوراثاثوں کی صورتحال کوبھی دیکھا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح وزیراعظم نے کہاہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ ہماراآخری پروگرام ہوگا، حکومت برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کرے گی، برآمدات پرنہیں بلکہ برآمدات پرحاصل منافع پرٹیکس ہوگا، اگربرآمدکنندہ کو منافع نہیں ہوگا تواس سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا، اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ سیلزٹیکس ریٹرن میں تاخیرنہیں ہوگی ،آئندہ دو تین روز میں تمام سیلزٹیکس ریٹرن کی ادائیگی کردی جائیگی، برآمدکنندگان کے کے ڈی ایل ٹی ایل بھی جلد اداہوں گے اوراس حوالہ سے بجٹ میں فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے اقدامات کاسلسہ جاری رہے گا، سی پیک فیزٹومیں مونیٹائزیشن پربات ہورہی ہے، نئے مالی سال میں ہم بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں جائیں گے اور پانڈا بانڈ بھی جاری کریں گے۔وزیرخزانہ نے واضح طورپر کہا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافہ کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ ایک یہ سیلینگ ہے، پہلے بجٹ میں اس کو 80 روپے فی لیٹرکرنے کی تجویز تھی تاہم اب اسے 70 روپے کردیاگیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ملکی معاشی استحکام اورپائیدارنمومیں صوبوں کا حصہ اہمیت کاحامل ہے، ہم صوبوں کے ساتھ بات چیت کریں گے، صوبوں کواخراجات میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام کلی معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے مثبت پیش رفت ہورہی ہے، نیاپروگرام بڑا اورطویل ہوگا، بجٹ کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری مشاورت ہوئی تھی، ہم نے پروگرام کوآگے لے جانا ہے،ہم استحکام کوچھوڑ کرنمو کی طرف نہیں جاسکتے کیونکہ ماضی میں اس سے مسائل پیداہوتے رہے ،ہماری معیشت درآمدی ہے اورہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اضافی ٹیکسوں سے مسائل ہیں مگراس کا تدارک بھی کرنا ہے، برآمدکنندگان کواگرنارمل ٹیکس رجیم میں لایاگیاہے تو اس کے ساتھ ساتھ انہیں سہولیات اورترغیبات بھی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ انفورسمنٹ کے اقدامات سے بدعنوانی کے خاتمہ کا عمل جاری رہے گا، اس وقت ٹیکس سے متعلق مقدمات کا حجم 2700 ارب روپے ہیں جوپھنسے ہوئے ہیں۔ اضافی ٹیکسوں کازیادہ بوجھ نہیں ہے، جب مالی گنجائش ہوگی توپہلی ریلیف تنخواہ دار طبقے کوملے گا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ہم نے کسی کواضافی استثنیٰ نہیں دیا ہے،نیشنل فسکل پیکٹ آئینی معاملہ ہے، ہم نے صوبوں سے بات شروع کی ہے،صوبے ریونیواوراخراجات کواس طرح آگے لے جائیں جوملک کیلئے پائیدارہوں۔
بعض ایسے اخراجات ہیں جو صرف صوبوں سے متعلق ہیں، وہ اخراجات صوبوں کواٹھانا چاہئیے،سوشل پروٹیکشن پروگرام میں صوبوں کواخراجات شئیرکرنا چاہیے، مکمل صوبائی نوعیت کے منصوبہ کو صوبائی سالانہ پلان کاحصہ ہونا چاہئیے ،ہم وزرائے اعلیٰ کے ساتھ اس حوالہ سے بات کریں گے۔ پی ایس ڈی پی میں کٹوتی سے متعلق سوال پروزیرخزانہ نے کہاکہ 81 فیصد فنڈز سے پہلے سے جاری منصوبے مکمل ہوں گے ، 19 فیصد فنڈز نئے منصوبوں کیلئے مختص ہیں، بعض پراجیکٹ میں روپیہ کو کوردینا ضروری ہوتا ہے،ایس ڈی جیز کو مساوی طورپرآگے لے کرجائیں گے۔ پی ڈبلیوڈی کے ملازمین سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ ادارے میں 6100 ملازمین ہیں، مختلف ملازمین وہ کام جاری رکھیں گے، ملازمین کی رننگ فینسنگ ہوگی اوران کے حقوق کے حوالہ سے اقدامات کئے جائیں گے،،زیادہ ترملازمین کورکھا جائیگا۔
توانائی کے شعبہ سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ بجلی چوری اورتوانائی کے شعبہ میں اصلاحات پراویس لغاری بہت کام کررہے ہیں، ڈسکوز کے بورڈ میں نجی شعبہ کو لایا جارہاہے ،اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں لائیں گے تومسائل جاری رہیں گے ، 600 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اضافی ریونیواقدامات سے اگلے سال بھی ہمیں فائدہ ہوگا ، اگلے دوہفتے میں ری ٹیلرزسکیم کو موڈیفائی کریں گے، یکم جولائی سے اس کا اطلاق ہوگا ، ری ٹیل سیکٹر کے ساتھ ہماری بات چیت بھی جاری ہے۔ پنشن اصلاحات سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا کہ ہم پرانے طریقوں کوجاری رکھیں، مسلح افواج کا سروس سٹرکچر الگ ہے اس لئے ایک سال کی مدت دی گئی ہے۔
کھربوں روپے پنشن واجبات کی مدمیں ہے اوریہ ایک مسئلہ رہاہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ بعض سٹیشنریز آئٹمز، خیراتی ہسپتالوں، ، پیسٹی سائیڈز وغیرہ پر ٹیکس استثنیٰ برقرارہے ۔بی آئی ایس پی کے بجٹ میں 27 فیصداضافہ ہواہے، پہلی بارسکلڈڈویلپمنٹ اورگریجوایشن پروگرام کو اس میں شامل کیاگیاہے۔آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق سوال پرانہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اسے پاکستان کے پروگرام کے تناظرمیں دیکھنا چاہئیے، ہمارے دوست ممالک بھی چاہتے ہیں کہ ہم پروگرام میں شامل ہوں۔آئی ایم ایف کے ساتھ ورچوئل بات چیت جاری ہے ،بنیادی فریم ورک پریہاں بات ہوئی تھی،سٹرکچر بینج مارکس اورپیشگی اقدامات پر بات چیت جاری ہے،یہ تین سالہ پروگرام ہوگا،اس کے حجم کے تعین کے حوالہ سے چیت ہورہی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان میں 9 ٹریلین روپے زیرگردش ہیں ، ہمیں غیردستاویزی معیشت کودستاویزی بنانا ہے۔