اسلام آباد۔29اکتوبر (اے پی پی):کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے دس ضروری غذائی اجناس کی مارکیٹ میں رکاوٹوں کی نشاندہی اور ویلیو چین میں بہتری اور کمپیٹیشن لانے کے لئے ڈرافٹ اسٹڈی مکمل کر لی ہے۔ ان 10 ضروری غذائی اجناس میں پیاز، خوردنی تیل، گھی، آلو، مرغی، گندم، چینی، دودھ، چاول، ٹماٹر، اور دالیں شامل ہیں جو کہ کھانے کی اشیاء پر ایک اوسط گھرانے کے ماہانہ اخراجات کا 63 فیصد بنتا ہے۔
ہفتہ کو یہاں جاری بیان کے مطابق نومبر 2021 سے مہنگائی کی شرح دو ہندسوں میں آنے کے بعد اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی نے غذائی انفلیشن کوکنٹرول کرنے کے لئے کارروائی شروع کی اور نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے سی سی پی کو ذمہ داری سونپی کہ وہ وہ ضروری اجنا س کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کا تعین کرے۔ چناچہ سی سی پی نے 51ضروری اشیاکی لسٹ میں سے دس اہم فوڈ آئٹمز کا انتخاب کر کے یہ سٹڈی مکمل کی ہے۔
سی سی پی نے ڈرافٹ سٹڈی کو شئیر ہولڈرزسے شیئر کر دیا ہے اور ان کی رائے جاننے کے لئے مشاورتی اجلاس منعقد کئے جن میں ایگریکلچر اور فوڈ منسٹریز کے نما ئند گان، ریسرچ کے ادارے اور پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخواہ کے متعلقہ ادارے شامل ہیں ۔سی سی پی کی چیئرپرسن راحت کونین حسن اور ان کی ٹیم جس میں ممبر مجتبی احمد لودھی اور دیگرسینئر آفیسر شامل ہیں نے سٹیک ہولڈرز کو سٹڈی سفارشات سے آگاہ کیا۔
اس معاملے پر بلوچستان کے سٹیک ہولڈرزسے سیشن کا انعقاد اگلے ماہ کیا جائے گا اور ان کی تجاویز آنے کے بعد اس ا سٹڈی رپور ٹ کو حکومت پاکستان کو پیش کیا جائے گا تا کہ متعلقہ مارکیٹ میں ہموارسپلائی اور رکاوٹوں کی نشان دہی کو ممکن بنایا جا سکے۔دس ضروری غذائی اجناس کی مشترکہ قیمتوں میں جولائی 2021 کے مقابلے میں جولائی 2022 میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔
مسور (92فیصد)، پیاز (89فیصد)، خوردنی تیل (77فیصد) اور چنے (52فیصد) کی قیمتوں میں اسی مدت کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔اس اسٹڈی میں قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن میں نامناسب پالیسیاں اور ریگیولیشنزشامل ہیں جو مارکیٹوں میں بگاڑ پیدا کر تی ہیں، کمپٹیشن کو روکتے ہیں،
اور نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، نیز ریسرچ ، جدت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے محدود اور عمل درآمد کی ناقص کوششیں ہیں۔ اس اسٹڈی کی سفارشات میں حکومتی پالیسی کی توجہ موجودہ بڑی فصلوں چینی، گندم سے دوسری فصلوں جیسے دالوں، دیگر اناج، آئل سیڈز اور سبزیوں کی طرف منتقل کرنا شامل ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایگریکلچر پروڈیوس مارکیٹس (اے پی ایم) کی کل تعداد بشمول سرکاری اور نجی (اناج اور پھل اور سبزیاں) 345 ہے جو کہ 230 ملین کی آبادی کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسٹڈی حکومت سے سفارش کر تی ہے کہ وہ اے پی ایم کے ساختی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے، بازار کے ثالث کے رینٹ سیکنگ کے رویے کی حوصلہ شکنی کرے، کمزور گورننس کو بہتر بنائے، اور اے پی ایم ایس کی تعداد میں اضافہ کرے۔
سی سی پی کی جاری شدہ اسٹڈی رپورٹ میں تجارتی رکاوٹوں کے مسٰلہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درآمدات اور برآمددات پر پابندی اور محصول کے زریعے ملکی مصنوعات کے تحفظ کا معاشی نظام تاجروں کے لئے بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔
پاکستان کی زرعی اجناس میں سب سے اہم گندم اور چینی کی فصلیں ہیں جن کو اکثر بین الاقوامی کمپیٹیشن سے محفوظ رکھا جاتا ہے اس لئے مقامی گندم او رچینی کی قیمت کو بین القوامی مارکیٹ سے بالترتیب ساٹھ فیصد اور چالیس فیصد ٹیرف کے ساتھ اوپر رکھا جاتا ہے اور ملک میں ان اجناس کی کمی پر یہ محصول ہٹا لیا جاتا ہے ۔
سٹڈی رپور ٹ میں ایسے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جن سے فارمرز کو انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی میں مدد مل سکے اور وہ پیداوار کی کوالٹی میں بھی بہتری لا سکیں۔اسٹدی رپور ٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ فارمرز کو ہر طرح کی فصلوں اور پیداوار کے لئے فائنانس تک رسائی میں اضافہ ہونا چاہیئے کیونکہ ایک مئوثر زرعی سیکٹر کے لئے یہ نہایت اہم ہے ۔
اسٹڈی میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ حکومت کو ایگری ای کامرس ایکو سسٹم کے قیام کے لئے کام کرنا چاہئے اور فارمرز کی آگاہی میں بہتری کے لئے تقریبات منعقد کرنی چاہیئں۔اسٹڈی میں حکومت کے لئے ایک اہم تجویز کانٹریکٹ فارمنگ کی حوصلہ افزائی ہے جس سے چھوٹے فارمرز کو بینکوں کے ذریعے پراسیسر کی گارنٹی پر قرض کے حصول میں مدد ملے گی ۔
یہ فارمراور پروسیسر تعلق میں مضبوطی کا باعث بھی بنے گا اور دونوں کے لئے مفید ثابت ہوگا۔اسٹڈی کے مطابق پانی کی بچت کے لئے ایسی دالوں اور تیل کے بیج جیسی فصلوں پر توجہ کی ضرورت ہے جو کہ کم سے کم پانی کے استعمال پر بھی موثر پیداوار مہیا کر سکیں۔اس کے علاوہ فوڈ سکیورٹی اور فوڈ پرائس کے اتارچڑھائو پر قابو پانے کے لئے سٹریٹیجک گرین ریزرو کی پالیسی کے استعمال کا بھی کہا گیا ہے۔