اسلام آباد۔5نومبر (اے پی پی):کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں (کل ) ہفتہ کو ”یوم شہدا جموں” منایا جائے گا جو 1947ء میں جموں اور اس کے نواحی علاقوںمیں کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے شہیدوں کی عظیم اور بے مثال قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے 6 نومبر کو ہر سال منایا جاتا ہے تاہم ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جبکہ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کو اس ضمن میں ایک ڈوزیئر بھی پیش کیا جس میں عالمی ادارہ کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور مقبوضہ علاقہ کی سنگین صورتحال کی جانب مبذول کرائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اکتوبر اور نومبر1947ء میں جموں اور اس کے نواحی علاقوںمیں تین لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو محض اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ اپنی تقدیر پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے تھے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے، کشمیر کی جدوجہد آزادی دراصل تحریک تکمیل پاکستان ہے جس کیلئے کشمیریوں نے لاکھوں قربانیاں پیش کی ہیں۔1947ء کے شہداء جموں نے نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کی آزادی بلکہ قیام پاکستان کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیااور تاریخ میں امر ہوگئے۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننے سے روکنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے جموں اور اس کے نواحی علاقوں میں1947ء میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ڈوگرہ فوج اور ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔کشمیری عوام آج بھی ان کے نقش قدم پر گامزن ہیں اوران کی یاد میں ہر سال مسلمانان کشمیر ”یوم شہداء جموں” مناتے ہیں ۔ہر سال کی طرح اس سال بھی ”یوم شہدا جموں” بھرپور عقیدت اور اس عزم کے ساتھ منایا جائے گا کہ جموں و کشمیر کے عوام بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ دنیا کے مختلف شہروں میں آباد کشمیری جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کریں گے اور نظریہ پاکستان اور کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے شہیدوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور ہندو انتہا پسندوں کی باہم سازش کے بعد جموں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مختلف مقامات پر لے جا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا تھا۔
اس وقت جموں اور اس کے نواحی علاقوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ جو لوگ پاکستان جاناچاہتے ہیں وہ جموں کے پریڈ گرائونڈ میں جمع ہوجائیں جہاں سے انہیں پاکستان بھیجا جائے گا۔ 20اکتوبر 1947ء کو ان میں سے 8 ہزار مسلمانوں کو جموں کے علاقے مالا ٹانک میں شہید کردیا گیا۔22 اکتوبر کو جموں کے علاقے ثانیا میں 14ہزار جبکہ اکھنور کے پل پر 15ہزار مسلمان شہیدکردیئے گئے۔ جموں اور دیگر علاقوں سے 5 اور 6 نومبر 1947ء کو ایک سو سے زائد گاڑیوں پر ہزاروں لوگوں کو اس بہانے سوار کیا گیا کہ انہیں پاکستان لے جایا جائے گا لیکن پاکستان پہنچانے کی بجائے ان بے بس مسلمانوں کو کٹھوعہ کے جنگلات میں لے جاکر قتل کردیا گیا۔ اس دوران بھارتی افواج نے بھی کشمیر پر قبضہ کرلیا اور ان کی موجودگی میں جموں کے علاقوں میران صاحب اور رنبیر سنگھ پورہ میں 25 ہزار مسلمان بے دردی سے شہید کئے گئے۔ ”لندن ٹائمز” نے کشمیر میں ہونے والے اس قتل عام کے بارے میں کئی رپورٹیں شائع کیں۔
اکتوبر 1947میں شائع ہونے والی ایسی ہی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی نگرانی میں 2 لاکھ 37ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ تاریخی واقعات سے یہ واضح ہے کہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ایک منظم منصوبہ بندی سے مہاراجہ ہری سنگھ کی سرپرستی میں کیا گیا اور اس کا آغاز ستمبر 1947 میں ہوا، یہ قتل عام قبائلیوں کے کشمیر میں آنے سے کافی عرصہ قبل شروع ہوچکا تھا۔ جموں میں اکتوبر اور نومبر1947 میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں 123 دیہات کو مکمل طور پر ختم کیا گیا۔
بھارتی انتہا پسند تنظیموں جن میں آر ایس ایس بھی شامل ہے، نے ہندو بلوائیوں کی مکمل پشت پناہی کی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا تھا۔ بھارت میں مودی حکومت کی سرپرستی میں ہندوتوا کے پیروکار ظلم وستم کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑارہے ہیں، 5 اگست 2019ء کا بھارتی اقدام اس کی تازہ ترین کڑی ہے جس کا مقصد کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری کے حق میں متعدد قراردادیں پاس کی ہیں جن پر بھارت نے کبھی عملدرآمد نہیں ہونے دیا اور اس طرح تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کے حل طلب ایجنڈے میں بدستور موجود ہے ۔