اسلام آباد۔20جنوری (اے پی پی):سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہر مسلمان کے آفاقی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی مسلمان یا پاکستانی مذہبی تعلیم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والے اداروں پر اعتراض نہیں کر سکتا۔پیر کو یہاں سینیٹ اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر انہوں نے مذہبی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ دور دراز علاقوں میں بھی خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے، چاہے گھر میں ہو یا قریبی مدارس میں، یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے اور کوئی بھی مسلمان یا پاکستانی مذہبی تعلیم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والے اداروں پر اعتراض نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت یا ادارے کو ان مذہبی اداروں کو ختم کرنے یا اس کی مخالفت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہزاروں مدارس رجسٹرڈ ہیں اور مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
القادر ٹرسٹ کے حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا لیکن ایک دعوی یہ بتاتا ہے کہ پیسہ ریاست کا تھا، جبکہ دوسرا دعوی کرتا ہے کہ یہ ملک ریاض کے فنڈز تھے جو ٹرسٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے ، ان دعوئوں سے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض نے 500 کنال کے قریب زمین ایک ایسے ٹرسٹ کو کیوں دی جو حال ہی میں قائم ہوئی تھی۔ مزید برآں، بنی گالہ میں فرحت شہزادی نامی خاتون کو مبینہ طور پر 240 کنال زمین دی گئی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ زمین کیوں دی گئی اور کس جواز کے تحت دی گئی؟ اگر ملک ریاض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا گیا تو انہوں نے یہ زمین کیوں عطیہ کی؟ یہ سوالات جواب طلب ہیں۔انہوں نے ٹرسٹ کے قیام میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ 2020 میں متعارف کرائے گئے تازہ ترین ٹرسٹ قوانین کے تحت رجسٹرڈ نہیں ۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں قائم یہ ٹرسٹ واحد ہے جو 1882 کے ایکٹ کی جگہ نئی قانون سازی کے بعد نئے قوانین کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہوا، کسی بھی وزیر اعظم کے دور میں اس طرح کا کیس سامنے آنا بے مثال ہے۔ انہوں نے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھائے جانے کے دعووں کو چیلنج کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا سیکڑوں کنال زمین پیسوں، روپوں، ڈالرز یا پاؤنڈ کے بغیر مفت آئی؟ ۔