اسلام آباد ۔ 10 اپریل (اے پی پی) و,زیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وباءپوری دنیا کے لئے آزمائش ہے، وباءاور لاک ڈاﺅن کے اثرات سے نمٹنے کے لئے تیاری کر لی گئی ہے، کورونا ریلیف فنڈ اور رضا کار ٹائیگر فورس متاثرین کی امداد میں اہم کردار ادا کریں گے، ہمیں اپنے غریب اورکمزور طبقات کا خصوصی خیال رکھنا ہے، تمام صوبوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل رابطے قائم ہیں، یہ جنگ پوری قوم مل کر جیتے گی۔ کورونا ریلیف فنڈ کے حوالے سے 92 نیوز چینل کی لائیو ٹیلی تھون میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کورونا اور لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، معیشت کو نقصان پہنچا، ہم مستقبل میں اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران میں امریکہ نے 2200 ارب ڈالر اور جاپان نے ایک ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دیا ہے جبکہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ 8 ارب ڈالر کا پیکج دے سکےں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں اور جو دستیاب ہیں انہیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خیرات دینے والے سب سے زیادہ ہیں، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے زکوة اور خیرات کرتے ہیں، یہ ہماری طاقت ہے، اسی طرح ہمارے نوجوان بھی ہماری بڑی طاقت ہیں، مستقبل میں کیا حالات ہوں گے، اس کا کسی کو معلوم نہیں ہے تاہم ہمیں اپنی تیاری کرنا ہو گی، اس مقصد کے لئے اپنی ان دونوں طاقتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دو ہفتے میں 144 ارب روپیہ ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں میں تقسیم کرنے ہیں، آنے والے دنوں میں حالات مزید بگڑیں گے، غریب زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ان کی ضروریات کو پورا کرنے اور مشکل وقت میں ان کی مدد کے لئے یہ فنڈ قائم کیاہے تاکہ لوگ اس میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں کورونا کے کیسز بڑھیں گے، ہمیں معلوم ہے کہ جتنی احتیاط کریں گے، اس کا پھیلاﺅ اتناکم ہو گا، ہمارا صحت کا نظام اتنا مضبوط نہیں ہے اگر بڑی تعداد میں مریض آنے لگے تو یہ نظام برداشت نہیں کر سکے گا، اس صورتحال سے بچنے کے لئے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے، اگر احتیاط کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس مشکل سے نکل آئیں گے، مریضوں کی تعداد کے دباﺅ کے باعث امیر ترین ممالک بھی نہیں سنبھل سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں احتیاط کرنی ہے خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو بیمار ہیں یا ضعیف ہیں، ہمیں ان کی حفاظت کےلئے احتیاط اختیار کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مشکل وقت میں ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کو فی گھرانہ 12 ہزار روپے دے رہے ہیں، یہ ایک کروڑ 20 لاکھ خاندان ہیں لیکن مزید بڑی تعداد میں ایسے لوگوںکی مدد کی ضرورت ہو گی، ریلیف فنڈ کا سارا پیسہ ان لوگوں کو جائے گا، اس حوالے سے کوئی سفارش یا سیاسی وابستگی نہیں دیکھی جائے گی بلکہ نادرا کے ڈیٹا بیس کی بنیاد پر مکمل چیکنگ کے بعد سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو امداد فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امداد کے مستحق لوگوں کی تعداد بڑھتی جائے گی، کورونا ریلیف فنڈ میں جمع ہونے والی رقم ایسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے پر خرچ کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2005ءکے زلزلے اور 2010ءکے سیلاب میں بھی کام کیا ہے، ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہر پاکستانی نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے، سیلاب کے دوران تو بیرونی امداد کے بغیر متاثرین کی مدد کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ اس دوران ایک اہم مسئلہ یہ پیش آیا کہ امداد کی تقسیم کا طریقہ کار منظم نہ ہونے کے باعث کہیں پر ضرورت سے زیادہ امداد پہنچ گئی لیکن دوسری جگہ بالکل نہیں پہنچ سکی، اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے احساس پروگرام کے تحت ویب سائٹ لانچ کریں گے، جس کے ذریعے امداد دینے والوں اور ضرورت مند افراد یا علاقوں کی فہرستیں بنائی جائیں گی تاکہ منظم طریقے سے اصل ضرورت مندوں تک امداد پہنچ سکے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کورونا کے خلاف برسرپیکار ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ان کی حفاظت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا، پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے، حکومت انہیں تمام ضروری سامان اور آلات فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کی وباءسے نمٹنے کیلئے زیادہ تر سامان درآمد کیا جاتا ہے، پاکستان ایک جوہری ملک ہے جس نے ایٹم بم بنا لیا اس کیلئے وینٹی لیٹرز اور ٹیسٹنگ کٹس بنانا مشکل نہیں ہونا چاہئے، اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے خلاف جنگ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اور نہ کوئی بیرونی امداد سے جیت سکتے ہیں، یہ جنگ پوری قوم مل کر باہمی رابطہ سے جیت سکتی ہے، اس سلسلہ میں تمام صوبوں اور متعلقہ اداروں کی ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں، کورونا کے حوالہ سے روزانہ کی بنیاد پر تمام صوبوں سے ڈیٹا آتا ہے، اس کا جائزہ لے کر مل جل کر فیصلے کئے جاتے ہیں، باہمی رابطہ سے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں شروع سے یکدم اور لاک ڈاﺅن کے حق میں نہیں، ہمارے زمینی حقائق مختلف ہیں، یہاں بتدریج لاک ڈاﺅن کی ضرورت تھی کیونکہ روزگار کے ذرائع کی یکدم بندش سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کورونا کے 26 کیسز سامنے آئے تو لاک ڈاﺅن شروع کر دیا گیا، ایک دم لاک ڈاﺅن سے غریب طبقہ کی مشکلات بڑھ گئیں، پہلے بڑے اجتماعات بند کرنے کے بعد بتدریج اس سلسلہ کو بڑھانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ رضاکار فورس بہت اہم ہے، برطانیہ جیسے ملک نے بھی رضاکار فورس کا اعلان کیا جہاں ادارے اور وسائل بھی موجود ہیں، اسی طرح امریکہ نے جنگ میں لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے طریقہ کار کے تحت کورونا کے خلاف جنگ کیلئے بھی رضاکاروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے موجودہ اداروں پر پہلے ہی بہت دباﺅ ہے لیکن کیسز کی تعداد زیادہ بڑھنے کے بعد کیا حالات ہو سکتے ہیں، اس لئے ہمیں پہلے سے تیاری کرنی چاہئے، یہ ٹائیگر فورس اسی تیاری کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے 7 لاکھ لوگ ٹائیگر فورس میں شامل ہوئے ہیں، آنے والے دنوں میں ان کی ضرورت پڑے گی کیونکہ لاک ڈاﺅن میں کھانا پہنچانے کیلئے افرادی قوت کی اشد ضرورت ہو گی، یہ رضاکار فورس سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ ٹائیگر فورس کے رضاکار وہ لوگ ہوں گے جو پوری انتظامیہ کی مدد و معاونت کریں گے، متاثرین کی نشاندہی اور ان کی امداد میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے امیر طبقہ کیلئے سوچتے ہیں اس لئے عظیم قوم نہیں بن سکے، لاک ڈاﺅن کرتے ہوئے نہیں سوچا گیا کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب لوگ اور 80 فیصد محنت کش جو رجسٹرڈ ہی نہیں ان کا کیا بنے گا۔مدینہ کی ریاست میں مشکل وقت میں بھی غریب طبقہ کا خیال رکھا گیا، فلاحی ریاست کا تصور یہی ہے کہ اس کے غریب اور کمزور طبقات کو اوپر اٹھایا جائے، اسی بنیاد پر مسلمان عظیم قوم بنے تھے، چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے احساس تھا کہ غریب علاقوں کے لوگوں کا کیا بنے گا اس لئے مکمل لاک ڈاﺅن کا حامی نہیں رہا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ مشکل وقت ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان اس آزمائش کے بعد مزید مضبوط ملک بن کر ابھرے گا۔