فیصل آباد۔27دسمبر (اے پی پی):کورونا کی عالمی صورتحال کے تناظر میں ہماری حکومت کی بہترین حکمت عملی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ورکنگ جاری رکھنے اور اسی حوالے سے ہمارے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو دھڑا دھڑ بر آمدی آرڈرز ملنے کے باعث پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر اس وقت فل کپیسٹی پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے روئی کی طلب بھی بڑھ کر ایک کروڑ 45 سے 50 لاکھ گانٹھ ہوسکتی ہے جبکہ اس کے برعکس ہماری کپاس کی ملکی پیداوار 60 لاکھ گانٹھ کے قریب ہونے سے امسال 80لاکھ کے قریب گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی جن پر کم از کم 6.75 ارب ڈالر لاگت آئے گی لہٰذا حکومت کپاس کی ملکی پیداوار میں کم از کم دوگنا اضافہ کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے اور اس سلسلہ میں زرعی سائنسدانوں و ماہرین زراعت سمیت محکمہ زراعت کو خصوصی ٹارگٹ فراہم کئے جائیں نیز کپاس کی ایسی ورائٹیز کی تیاری کی جانب خصوصی توجہ مبذول کی جائے جو پتہ مروڑ وائرس سمیت دیگر بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں و جڑی بوٹیوں کے خلاف بھرپور قوت مدافعت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کے دوران زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل بھی ہوں تاکہ کپاس کی موجودہ ملکی صورتحال میں درآمدی بل کم کرکے قیمتی زر مبادلہ بچایا جاسکے۔ کاٹن جنرز اینڈ بروکرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایا کہ کپاس کی بڑھتی ہوئی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اب تک بیرون ممالک سے 38 لاکھ 50 ہزار کے قریب کپاس کی گانٹھیں خریدنے کے سودے ہوچکے ہیں جبکہ باقی ڈیمانڈ کے مطابق کپاس کی امپورٹ کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ہماری سپننگ ملز نے بھی اچھی کوالٹی کی روئی میں اپنی دلچسپی بڑھائی ہے اس طرح اعلیٰ معیار کی کپاس کے حصول سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی کوالٹی میں مزید بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی ڈیمانڈ میں اضافہ کی وجہ سے جنرز نے بھی روئی کے نرخ بڑھادیئے ہیں اور روئی کی قیمت 10 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام کے قریب پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح حکومت گندم، کماد، چاول، دالوں، روغنی و تیلدار زرعی اجناس سمیت دیگر فصلات کی زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کاشت کیلئے کاشتکاروں، کسانوں و زمینداروں کو خصوصی مراعات فراہم کر رہی ہے اسی طرح کپاس کے کاشتکاروں کیلئے بھی انسینٹوز کا اعلان کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقبہ پر وائٹ گولڈ کپاس کی کاشت یقینی بنائی جاسکے۔