اسلام آباد۔1اپریل (اے پی پی):مہلک وبائی بیماری کووڈ ۔19 کی تیسری لہر کے دوران لاپرواہی کے سبب کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ،صورتحال پر قابو پانے کیلئے حکومت کی طرف سے کووڈ۔ 19 کی پارلیمانی نگرانی خوش آئند ہے تاہم اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں نے کووڈ ۔ 19 کی پریشان کن صورتحال پر غور کے لئے فروری میں اپنے اجلاس منعقد کئے اور قانون سازوں نے ویکسین کی خریداری اور ویکسینیشن پلان سے متعلق معلومات کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے لیکن اس کے باوجود اس اعلیٰ ترین فورم پر کوئی اہم فیصلہ نہیں لیا گیا۔ اس امر کا اظہار ٹرسٹ فار ڈ یمو کریٹک ایجوکیشن اکائونٹیبلٹی ۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (ٹی ڈی ای اے ۔فافن) کی کووڈ ۔19 پر پانچویں مانیٹرنگ رپورٹ میں کیا گیا ۔ فافن سے جاری پریس ریلیز کے مطابق کووڈ۔19 گورننس سے متعلق فافن کی اس رپورٹ کی تیاری کے لئے زیر مشاہدہ 35 اضلاع میں کووڈ کے خلاف اقدامات کے ذمہ دار متعلقہ کرداروں کے انٹرویو اور یکم فروری 2021 سے 15مارچ 2021 تک ہسپتالوں کے دوروں کے بعد اعدادوشمار جمع کئے گئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کووڈ۔19 کی تیسری اور شدید لہر میں داخل ہو چکا ہے ، ایسے میں اس پر قابو پانے کیلئے تیزرفتا اور پائیدارکوششوں و نگرانی کی ضروت ہے ۔
اگرچہ زیر تبصرہ عرصے ( فروری) کے پہلےتین ہفتوں کے دوران وبا کے پھیلاؤ کی ماہانہ شرح کے مطابق شرح اموات میں کمی واقع ہوئی تاہم آخری ہفتے میں شرح کے اموات بڑھنے اور مارچ کے پہلے دو ہفتوں میں متاثری کی کثرت سے اس نئی لہرکا آغاز ہوا ۔ اس وبائی مرض کی تیسری لہر کے ملک کو لپیٹ میں لیتے ہی فعال کوویڈ 19 کے کیسوں کی تعداد بڑھ گئ ۔
فروری کے پہلے ہفتے میں اس بیماری کے پھیلائوکی شرح 3.6فیصدتھی جو بڑھتے بڑھتے مارچ کے دوسرے ہفتے میں5.8 فیصد تک پہنچ گئی ۔تیسری لہر فروری کےدوران اس بیماری سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کی تعمیل نہ ہونے کے بعد شروع ہوئی ۔ یہاں تک کہ سرکاری دفاتر اور صحت کے اداروں میں بھی عملے اور زائرین کی طرف سے حفاظتی تدابیر کی تعمیل میں گزشتہ مہینوں کے دوران کمی ریکارڈ کی گئی اور فروری میں بھی یہ رحجان برقرار رہا ۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں 30 فیصد سرکاری دفاتر اور صحت کی دیکھ بھال کے 34 فیصدمراکز میں معاشرتی فاصلوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔لا پرواہی کے یہ رجحانات دوسرے اہم اشاریوںمیں بھی دیکھے گئے ۔ جیسا کہ فروری میں ماہانہ ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 0.98 ملین کی کمی ہوئی جو کہ نومبر 2020 میں دوسری لہر کے آغاز کے بعد سب سے زیادہ تھی ۔ اس کے بعد ایک ردعمل کے طور پر یہ تعداد بتدریج بڑھنی شروع ہوئی اور فروری کے آغاز میں 31،000 فی ہفتہ سےبڑھ مارچ کے وسط تک 40،000 فی ہفتہ ریکارڈ کی گئی ۔
رپورٹ کے مطابق زیر تبصرہ عرصہ میں پاکستان میں ویکسینیشن مہم توقع سے کہیں زیادہ سست رفتار رہی اور 100 افراد میں 0.16 افراد میں اس کی فراہمی ممکن ہوسکی۔ ویکسی نیشن کی فراہمی کی یہ شرح خطے کے دیگر ممالک مثلاً ہندوستان ، نیپال ، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے ۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح اور ویکسینیشن کی ان کی ضرورت کے مقابلےپر ویکسین کی کمیابی کووڈ ۔19 کی تیسری اور شدید لہر کے مقابلے کی قومی استعداد پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے ۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کووڈ ۔19 کی تیسری لہر سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے پاکستان میں نہ صرف ویکسینیشن مہم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے بلکہ عوام میں حفاظتی تدابیر کو اپنانے کو رواج دینا ہوگا ۔ اسی طرح مارکیٹوں اور بازاروں کے اوقات کار کی پابندی کو عوامی شعور کی بیداری اور انہیں اس حوالے سے مزید حساس بنانے کی مہم کیساتھ جوڑنا ہوگا ۔ اس کام کیلئے حکومت کو کمیونٹی کے رہنماؤں اور اہم شعبہ جات بشمول تاجروں ، نجی سکولوں اور دینی مدارس کے نمائندوں کو شامل کرنا ہوگا ۔
مزید بر آں رپورٹ میں متاثرہ طبقات کیلئے حکومت کی امدادی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے کہا گیا ہے کہ حکومت ان لوگوں کی ضروریات اور مشکلات پر ضرور غور کرے جو ریلیف سرگرمیوں سے مستفید ہونے کیلئے مستحق ہونے کے باوجود درخواست دینے کے مطالبہ تقاضے پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر تقریبا اایک کروڑ 27 الکھ ایسی خواتین جو اپنا کام کرتی ہیں یا غیر رسمی شعبے میں ملازم ہیں اور ان کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے زیادہ توجہ کی مستحق ہیں ۔