اسلام آباد۔8جون (اے پی پی):وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کینیڈا میں پاکستانی کینیڈین خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو دل دہلا دینے والا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سانحہ انفرادی فعل نہیں بلکہ اسلاموفوبیا کا بڑھتا ہوا تشویشناک رحجان ہے، عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری نے اس حوالے سے موثر اقدامات نہ اٹھائے تو اس سے مزید سانحات جنم لے سکتے ہیں، کینیڈین حکومت کو متاثرہ خاندان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے، ہم نے کینیڈین حکومت تک پاکستانی قوم کے جذبات پہنچا دیئے ہیں، وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ عالم اسلام کو اس مسئلے پر یکجا کرکے موثر انداز میں آواز بلند کی جائے مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان سے عالمی معاشرہ تقسیم ہوگا۔
منگل کو قومی اسمبلی میں کینیڈا میں پیش آنے والے افسوسناک سانحہ پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 7 جون کی علی الصبح اونٹاریو کینیڈا میں افسوسناک واقعہ پیش آیا، پاکستانی کینیڈین شہری فیملی کے 5 افراد متاثر ہوئے، 4 شہید ہوگئے اور ایک 9 سالہ بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہسپتال میں داخل ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا دردناک واقعہ ہے۔ ٹورنٹو میں ہائی کمشنر سے بات ہوئی ہے جو تفصیلات ملی ہیں ان کو سن کر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ اٹاپسی رپورٹ ابھی آنی ہے، رپورٹ آنے سے پہلے اس لئے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ اسلامو فوبیا حملے مغربی دنیا میں بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم اس کا ذکر بارہا کر چکے ہیں۔ ہم عالمی برادری کی بھی توجہ مبذول کرا چکے ہیں۔
یہ انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک بڑھتا ہوا تشویشناک رحجان ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی مسجد میں شہادتیں ہوئیں، نیوزی لینڈ کی قوم اور وزیراعظم نے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا جو حوصلہ افزا بات ہے۔برطانیہ میں نہتے لوگوں پر چھریوں سے حملے کئے گئے، ان کا کوئی قصور اور گناہ نہیں ہے۔ نیدرلینڈ میں توہین آمیز خاکوں سے پوری امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوئے۔
فرانس میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی معاشرہ تقسیم کی طرف جارہا ہے۔ یورپ میں 65 ملین مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ کینیڈا میں 2 ملین مسلمان ہیں۔ امریکہ میں 60 لاکھ سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ مغربی دنیا کو اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے ٹرینڈ سے معاشرہ تقسیم ہوگا اور حادثات جنم لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے مجھے کہا ہے کہ اس معاملے پر عالم اسلام کو یکجا کرنا چاہیے۔ اس طرح ہماری آواز میں اثر ہوگا۔ پوری امہ کو یکجا ہوکر اس مسئلہ کو دیکھنا چاہیے۔
یہی قرارداد اقوام متحدہ میں میں نے پیش کی جو منظور ہوئی۔ ہم نے اپنے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر عالمی اتفاق رائے قائم کریں۔ وزیراعظم نے اس واقعہ پر ایک ٹویٹ بھی کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کینیڈا کی پولیس واقعہ کے فوری بعد موقع پر پہنچی۔ ہمارے قونصل جنرل پہلے شخص تھے جن کا متاثرہ خاندان سے رابطہ ہوا۔ یہ ایک نفرت پر مبنی جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان ایک فزیو تھراپسٹ تھے جو دس سالوں سے وہاں امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اس واقعہ میں بنیادی عنصر نفرت نظر آرہا ہے۔ اس خاندان کا گناہ یہ تھا کہ وہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان تھے۔ متاثرہ خاندان سہما ہوا ہے۔ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جب تک پورے حقائق سامنے نہ آجائیں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔یہ بنیادی طور پر لاہور کے رہنے والا خاندان تھا ان کے ایک بھائی آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹویٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے اقدامات میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ اونٹاریو صوبہ کی انتظامیہ نے بھی کہا ہے کہ ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔
ایسا واقعہ یہاں نہیں ہونا چاہیے۔ میری کینیڈین ہائی کمشنر وینڈی گلمور سے ملاقات ہوئی ہے اور ان تک پاکستانی قوم کے جذبات پہنچا دیئے ہیں۔ میں نے کینیڈین ہائی کمشنر کو نیوزی لینڈ واقعہ کی مثال دی ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام نے متاثرین کے پاس جاکر ان کے زخموں پر جس طرح مرہم رکھا ہے اس طرح برطانوی وزیراعظم کو بھی کرنا چاہیے۔
میری بدھ کی شام چھ بجے کینیڈین وزیراعظم کے ساتھ ٹیلی فون پر بات طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزمائش کے اس وقت میں کینیڈین حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے متاثرہ خاندان کو پیشکش کی تھی کہ میتوں کو پاکستان لانے کے لئے ہم تعاون کریں گے مگر انہوں نے کہا کہ وہ تدفین کینیڈا میں ہی کریں گے۔ کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کو جنازے میں شرکت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو اس پر بات کرنی چاہیے۔ عالمی میڈیا کو بھی اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اس رجحان کے تدارک کے لئے انسانی بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے واقعہ پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ دلخراش واقعہ ہے جس پر ہر پاکستانی اور مسلمان غمزدہ ہے۔ اس سے قبل بھی کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اس واقعہ کو قومی یکجہتی کے لئے استعمال کیا جس کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی۔
احسن اقبال نے کہا کہ اسلامو فوبیا کے واقعات ہو رہے ہیں اور ان واقعات سے ہمیں یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ ہم پر فرض ہے کہ اگر پاکستان میں اس طرح کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پاکستانیت پر حملہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں پرتشدد انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب مہذب اور جمہوری ہونے کے دعوﺅں کی نفی ہے۔
مغربی لیڈروں نے افغانستان میں پردے کے احکامات اور یورپ میں مسلمانوں کے لئے لباس کے معاملے پر الگ الگ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس اور اسلامو فوبیا کے دیگر واقعات پر قومی اسمبلی کو بین الپارلیمانی یونین کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں پارلیمانوں کے ذریعے اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لئے حقیقی معنوں میں کوششیں ہو سکیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ وہ وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ شراکتداروں سے مشاورت کے بعد اقدام کریں گے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے احسن اقبال کی تجویز کو قابل غور اور معقول قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا پر قوم اور پارلیمانی یکجا ہے۔ سپیکر جو بھی رہنمائی کریں گے وزارت خارجہ اس کے مطابق کارروائی کرے گی۔