کے-الیکٹرک کے صارفین کو ٹی ڈی ایس کے تحت بجلی کے نرخوں میں نمایاں ریلیف ملے گا،وفاقی وزیر خرم دستگیر

133

کراچی۔ 16 جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے بجلی انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ حکومت کراچی کے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے نئے مالی سال میں 171 ارب روپے ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) کے طور پر مختص کرے گی،کے-الیکٹرک کے صارفین کو ٹی ڈی ایس کے تحت بجلی کے نرخوں میں نمایاں ریلیف ملے گا،ٹی ڈی ایس ایک ٹارگٹڈ سبسڈی جس کا مقصد عوام کو بجلی کی پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 2023-24 میں بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور سابق فاٹا کے اضلاع سمیت ملک کے دیگر حصوں کے لیے  بھی 151 بلین روپے مختص کیے گئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے ٹی ڈی ایس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ٹارگٹڈ سبسڈی ہے۔وفاقی وزیر نے سمندری طوفان بپرجوئے کی وجہ سے کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر عوام کے تحفظ اور ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر ایک جامع حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قومی کوششوں کے تحت مختلف پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں بشمول گیپکو، لیسکو، میپکو اور سیپکو کے 2ہزار سے زائد اہلکار سندھ کے جنوب مشرقی اضلاع میں گاڑیوں اور ضروری آلات کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر تعینات کیے گئے ہیں۔وفاق وزیر  نے کہا کہ سندھ حکومت نے اس سلسلے میں مکمل تعاون کیا ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قریبی ہم آہنگی برقرار رکھی جارہی ہے جبکہ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جنریشن پلانٹس اور گرڈ اسٹیشنز پر تعینات ٹیکنیکل ٹیمیں ہائی الرٹ پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ طوفان اتر چکا ہے اور اس کی شدت میں بتدریج کمی آرہی ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی معمول کے مطابق جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سمندری طوفان بِپرجوئے نے کراچی میں بجلی کی فراہمی پر چار گھنٹے تک تعطل کے علاوہ کوئی اثر نہیں ڈالا جو بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کو ایل این جی کی فراہمی میں مسائل کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، تاہم اس مسئلے کو فوری طور پر 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی قومی نیٹ ورک کی فراہمی سے حل کیا گیا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ کے الیکٹرک  نے بتایا کہ شہریوں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں ٹرانسفارمرز کو زمین سے اوپر اٹھانا، بجلی کے پولز کو مضبوط کرنا اور حادثات اور جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے الجھتی ہوئی تاروں کے گچھوں کو ہٹانا شامل ہے۔

خرم دستگیر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک نے دعویٰ کیا ہے کہ شہرقائد کے 70 فیصد علاقوں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ 30 فیصد علاقوں میں لوڈ مینجمنٹ کم ریکوری اور زیادہ لائن لاسز کے مسائل کی وجہ سے ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت بل ادا کرنے والے صارفین کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ٹرانسفارمرز کی سطح پر مائیکرو لوڈ مینجمنٹ کی پالیسی وضع کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ منتخب نمائندوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا کیونکہ مفت بجلی کا حصول ناممکن ہے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کنٹرول صوبوں کے حوالے کرنے سے متعلق ایک اور سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ یہ نجکاری کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ بجلی کی تقسیم کے نیٹ ورکس کی ‘صوبائی کاری’ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) میں پیش کیا جائے گا اور کونسل کے اصولی فیصلے کے بعد ڈسکوز کے اثاثوں کا تخمینہ لگایا اور مزید کارروائی کی جائے گی۔ایک اور سوال پر وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ حکومت کے پاس کے الیکٹرک میں 24 فیصد شیئرز ہیں اور متناسب طور پر بورڈ میں ڈائریکٹرز کی تعیناتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے نہ تو کے الیکٹرک میں اپنے حصص فروخت کیے اور نہ ہی کسی شیئر ہولڈر سے مزید حصص خریدے۔صارفین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور کے الیکٹرک کی تنظیم نو شفاف اور واضح طریقے سے کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے الیکٹرک، ایس ایس جی سی اور حکومت کے درمیان معاملات طے کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اور اب تک 90 فیصد مفاہمت ہو چکی ہے۔