گلوبلائزیشن کا تصور تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس میں علاقائیت نمایاں کردار ادا کر رہی ہے، مہر کاشف یونس

113
Mehr Kashif Younis
Mehr Kashif Younis

اسلام آباد۔8اکتوبر (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ گلوبلائزیشن کا تصور تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس میں علاقائیت نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ اتوار کو اسٹریٹجک تھنک ٹینک گولڈ رِنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام ’گلوبلائزیشن شفٹنگ ٹو ریجنلائزیشن‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی معاشی، سیاسی اور تکنیکی عوامل کے امتزاج سے وقوع پذیر ہے اور یہ دیکھنا ہو گا کہ آنے والے سالوں میں یہ پیش رفت دنیا کو کس طرح ڈھالتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلوبلائزیشن کئی دہائیوں سے پوری دنیا کی معیشتوں کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ اس نے بین الاقوامی تجارت، ثقافتی تبادلوں اور تکنیکی ترقی کے ایک قابل ذکر دور کو جنم دیا ہے تاہم جیسے جیسے ہم 21 ویں صدی میں آگے بڑھ رہے ہیں اس میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی کا ایک اور پہلو بدلتا ہوا سیاسی منظرنامہ ہے۔ عالمگیریت کے برعکس قوم پرستی اور تحفظ پسندی نے دنیا کے کچھ حصوں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ سیاسی رہنما اور پالیسی ساز تیزی سے اندرونی ترجیحات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جو گزشتہ دہائیوں کے برعکس عالمی باہمی ربط سے متصادم ہو سکتی ہیں۔

مہر کاشف یونس نے کہا کہ اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک علاقائی تجارتی معاہدوں اور بلاکس کا اضافہ ہے۔ یورپی یونین، آسیان، برکس اور افریقی یونین جیسی تنظیمیں اہمیت حاصل کر رہی ہیں اور عالمی تجارتی حرکیات کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی کے پیچھے مختلف محرکات ہیں لیکن ان میں اکثر علاقائی مفادات کے تحفظ، اقتصادی لچک کو مضبوط بنانے اور مخصوص علاقائی چیلنجوں سے زیادہ مو ¿ثر طریقے سے نمٹنے کی خواہش شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مواصلات اور نقل و حمل میں تکنیکی ترقی نے علاقائی تعاون کو مزید قابل عمل اور موثر بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گلوبلائزیشن فوری طور پر ختم نہیں ہو رہی بلکہ ان رابطوں کی حرکیات تبدیل ہو رہی ہیں۔