اسلام آباد۔21جنوری (اے پی پی):گلیشیئرز کے تحفظ کے بین الاقوامی سال کے آغاز کے موقع پر ماہرین نے گلیشیئرز کے پگھلنے سے ماحول کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اور باہمی تعاون پر مبنی اقدامات کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔ منگل کو ڈویلپمنٹ کیمونیکیشن نیٹ ورک (ڈیوکام پاکستان ) کے زیر اہتمام ویبینار میں ماہرین ماحولیات نے پاکستان میں گلیشیل لیک آئوٹ برسٹ فلڈز (گلوف) سے ملک کے گلیشیئرز کو پہنچنے والے نقصان اور زیریں کمیونٹیز کو لاحق شدید خطرات کا ذکر کیا۔
ویبینار کا عنوان ”پاکستان میں گلوف مینجمنٹ: سیکھے گئے اسباق اور آگے بڑھنے کا راستہ“ تھا۔انہوں نے کہا کہ گلیشیئر کے تحفظ اور گلوف کے بہتر انتظام کے لیے بہتر حکمت عملی واضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں جنگلات کی کٹائی کو روکنے سمیت سیاحت کے لئے رہائش اور تفریحی ڈھانچے کی تعمیرات کو کم کرکے انسانی مداخلت کو کم کرنا شامل ہے۔
ماہرین کے پینل نے جدید ٹیکنالوجی بشمول ڈرون، سیٹلائٹ امیجری اور خودکار موسمی سٹیشنوں کے ذریعے گلیشیئر مانیٹرنگ نیٹ ورکس کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹولز بروقت برفانی تبدیلیوں کو ٹریک کرنے اور شواہد پر مبنی فیصلہ سازی کے لیے ضروری ہیں۔ ماہرین نے گلیشیئر سے متاثرہ علاقوں میں ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر جنگلات کے منصوبوں کی وکالت کی جس کا مقصد قدرتی مناظر کا تحفظ اور پانی کے بہائو کو منظم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف ماحولیاتی انحطاط کو کم کریں گے بلکہ آب و ہوا کو ریزیلنٹ بنانے میں بھی کردار ادا کریں گے۔ پینل نے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں پر سخت ضوابط اور پہاڑی علاقوں میں صاف توانائی کے متبادل کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیاہ کاربن برف کی سطحوں کو سیاہ اور گرمی کے جذب کرنے کے عمل میں اضافہ کرکے گلیشیرز کے پگھلنے کو تیز کرتا ہے۔ ماہرین نے مقامی آبادیوں کو گلوف کے خطرات کو کم کرنے کے لیے درکار معلومات اور آلات سے آراستہ کرنے کے لیے خطرے سے دوچار علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری کے پروگراموں اور بیداری کی مہموں کو بڑھانے کی سفارش کی۔ ماہرین نے کہا کہ گلیشیئر کے تحفظ کی کوششوں میں مدد کے لیے موسمیاتی مالیات کو محفوظ بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ تحفظ کے منصوبوں اور موافقت کے اقدامات کے لیے مستقل مالی اعانت فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز کی حفاظت صرف ایک علاقائی تشویش نہیں بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے اور یہ کہ پاکستان اپنے اہم گلیشیئرز کو بہتر طریقے سے محفوظ، کمزور کمیونٹیز کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ منگل کو یونیسکو اور ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کے زیر اہتمام ایک ہائبرڈ ایونٹ میں گلیشیئرز کے تحفظ کے بین الاقوامی سال کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔
اس سلسلہ میں جنیوا میں تقریب منعقد ہوئی جبکہ اس حوالہ سے دنیا بھر میں 50 سے زائد ایونٹس کا انعقاد ہوا جس میں ڈیوکام پاکستان کا ویبینار بھی شامل ہے جس نے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے ماہرین کے ایک اعلیٰ سطحی پینل کو اکٹھا کیا۔ ان میں یو این ڈی پی اور حکومت پاکستان کے گلوف پراجیکٹس کے موجودہ اور سابق نیشنل پروجیکٹ مینجر کمال الدین قمر اور خلیل احمد کے ساتھ ساتھ ماہرین ماحولیات اور پالیسی ماہرین شامل ہیں۔
ان میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول، گلگت بلتستان ای پی اے کے ڈائریکٹر خادم حسین نوگام، علی جابر ملک، اعجاز احمد، سومیہ ارم، نصرت بانو، الطاف حسین، فرید انور، صویبہ نعیم، مہرور اپل، فوزیہ ویسر، قادر جیلانی، ڈاکٹر عمر عزیز اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر ڈیوکام پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیر احمد نے پاکستان میں گلیشیئرز کی حالت کا ایک جامع جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 13 ہزار سے زائد گلیشیئرز کا گھر ہے جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بلیک کاربن کے ذخائر اور غیر پائیدار انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے معدوم ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز پاکستان کے آبی وسائل کی لائف لائن ہیں جو دریائے سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں جو زراعت اور توانائی کے شعبوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کو شدید خطرہ لاحق ہے، اس لئے ان گلیشیرز کو مستقبل کے لیے محفوظ کرنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔