کراچی۔23جنوری (اے پی پی):اسٹیٹ بینک نے شرح سود 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد مقرر کردی ہے ۔پیر کو گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 100 بیس پوائنٹس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد اب شرح سود 17 فیصد کی جارہی ہے، نئے انفلوز آنے میں تاخیر کا سامنا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے، عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کے لئے بھی بے یقینی کی صورتحال ہے اور عالمی حالات سے ترسیلات اور ایکسپورٹ پر اثر آرہا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معاشی ترقی کی شرح نمو کا 2 فیصد کا ہدف حاصل کرنا دشوار ہوگا، کاروباری حالات اور درآمدات کے مسائل شرح نمو پر اثر انداز ہوں گے، لارج سکیل مینو فیکچرنگ بھی دباؤ کا شکار ہے، جولائی دسمبر جاری کھاتے کا خسارہ 3.7 ارب ڈالر رہا، جاری کھاتے کا خسارہ 10 ارب ڈالر سے بھی کم رہنے یعنی 9 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ قرضوں کی کافی ادائیگی کرچکے ہیں جن سے زر مبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑا، مہنگائی پر قابو پانے کے لئے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ ناگزیر تھا، مارکیٹ بیس ایکس چینج ریٹ پر ہی عمل کیا جارہا ہے، مارکیٹ کے پیرامیٹرز پر ریٹ میں تبدیلی ہوتی ہے۔
گورنر نے کہا کہ روپے کی قدر میں سٹے بازی کا رجحان ہے، بیرونی فنانسنگ کی ضروریات اور قرضوں کی ادائیگی کی ضرورت کی وجہ سے مارکیٹ میں ریٹ ہائی ہے، آئی ایم ایف ریویو پورا ہونے اور انفلوز آنے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیوں کے سوا اگر زرمبادلہ کا لین دین ہے تو وہ غیر قانونی ہے، زرمبادلہ کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ فنانسنگ کی ضرورت 33 ارب ڈالر تھی، 10 ارب ڈالر کا جاری کھاتے کا خسارہ اور 23 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تھے، ابھی تک 23 ارب کے قرضوں میں سے 15 ارب ڈالر کے بڑے قرضے نمٹا دیے ہیں، اس میں سے 9 ارب ڈالر قرضے ادا کردیے اور 6 ارب ڈالر رول اوور ہوا جب کہ آئندہ پانچ ماہ میں 8 ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں ، مزید 3 ارب ڈالر رول اوور ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ 2.2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی حد دو بارہ بحال ہوگی، خالص قرضے پانچ ماہ میں 3 ارب ڈالر سے کم ہیں جن کی ادائیگی کرنی ہے، تین ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کی ادائیگی نہیں کرنی ہوگی،سود کی مد میں دو ارب ڈالر ادا کیے مزید ایک ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ درآمدات کے لئے اسٹیٹ بینک کی پیشگی منظوری لینا ضروری تھی، کچھ کیسز میں بینکوں کی منظوری کے بغیر درآمدات کرلی گئیں، کنٹینرز پھنس جانا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے، ٹریڈ باڈیز سے شپمنٹس کی تفصیلات مانگی ہیں ، بیرون ملک سے سرمایہ حاصل کرکے یا موخر ادائیگیوں پر کی جانے والی درآمدات کی کلیئرنس کی اجازت دے دی ہے، چیمبر آف کامرس کی فراہم کردہ تفصیلات کی روشنی میں رہ جانے والی درآمدات کو بھی سہولت فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ شرح مبادلہ میں زیادہ اتار چڑھاؤ کے دوران بینکوں نے پیسہ بنایا، میں نے 13 بینکوں کا معائنہ کیا، بینکوں کے خلاف تحقیقات مکمل کرلی گئیں، ریگولیٹری اور فسکل تادیبی اقدامات کریں گے، ڈالر کے اتار چڑھاؤ میں پیسہ بنانے والے بینکوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔