گورنر سٹیٹ بنک طارق باجوہ کا پریس کانفرنس میں نئی زری پالیسی 2019ءکا اعلان

84
APP41-31 ISLAMABAD: January 31 - Governor State Bank of Pakistan Tariq Bajwa addressing a press conference at his office. APP photo by Saleem Rana

اسلام آباد ۔ 31 جنوری (اے پی پی) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ 25 بی پی ایس اضافہ کے ساتھ 10.25 فیصد مقررکر دیا، نیا پالیسی ریٹ (آج) یکم فروری 2019ء سے نافذ العمل ہو گا، زری پالیسی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ معاشی استحکام کےلئے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں اور معاشی بے یقینی میں کمی کے باعث اعتماد بڑھا ہے تاہم پی ایس ڈی پی اخراجات میں کمی کے باوجود مالیاتی خسارے نے ابھی تک مجموعی یکجائی کی علامات ظاہر کرنی ہیں، جاری حسابات کے خسارے میں بتدریج نمایاں بہتری آئی ہے جبکہ وسط مدت میں مہنگائی کا دباﺅ پیدا ہونے کا خدشہ ہے، حالیہ چند دنوں کے دوران دو طرفہ سرکاری رقوم کے حصول سے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ ذخائر بڑھ کر 8.2 ارب ڈالر کرنے میں مدد ملی ہے جس سے ملکی مجموعی زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 جنوری 2019ء کو 14.8 ارب ڈالر ریکارڈ کئے گئے۔ گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان طارق باجوہ نے جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس میں نئی زری پالیسی 2019ءکا اعلان کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی گورنر جمیل احمد، چیف اکانومسٹ ڈاکٹر سعید احمد اور ممبر بورڈ آف گورنرز عالیہ ہاشمی بھی موجود تھیں۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ نومبر 2018ءمیں گذشتہ زری پالیسی بیان کے بعد جاری ہونے والے معاشی ڈیٹا سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ پچھلے بارہ مہینوں کے دوران معاشی استحکام کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اہم ماہانہ اشاریے ملکی طلب میں کمی کی نمایاں علامات کے عکاس ہیں۔ جاری کھاتے کا خسارہ کم ہے، اگرچہ ایسا بتدریج ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی رقوم کی آمد میں اضافہ بھی ملک کے بیرونی کھاتوں پر دباﺅ میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیشرفت حوصلہ افزاءہے اور معاشی بے یقینی میں کمی کا باعث بنی ہے لیکن پاکستانی معیشت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں جاری کھاتے کا خسارہ، مالیاتی خسارہ اور مہنگائی کی بلند سطح شامل ہیں۔ یہ صورت حال معاشی یکجائی کی مسلسل کوششوں کی متقاضی ہے۔ طارق باجوہ نے کہا کہ مالی سال 2019ءکی پہلی ششماہی میں اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 6.0 فیصد پر ہے جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے 3.8 فیصد کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران سال بسال عمومی مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے جس کا بنیادی سبب تلف پذیر غذائی اشیاءکی قیمتوں کا تیزی سے گرنا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔ ان پیشرفتوں کے اثرات کو آئی بی اے اسٹیٹ بینک کے حالیہ اعتمادِ صارف سروے میں بھی شامل کیا گیا ہے، جس سے گھرانوں میں مہنگائی کی توقعات میں کچھ اعتدال کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان مثبت عوامل کے باوجود سی پی آئی باسکٹ میں شامل غیرغذائی غیر توانائی اجزاءسے اخذ کی جانے والی کور انفلیشن دسمبر 2018ءمیں بڑھ کر 8.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ امکان ہے کہ آگے چل کر شرح مبادلہ، گیس اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے اور اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرضوں کی بلند سطح کے مہنگائی پر دورِ ثانی اثرات، پالیسی ریٹس میں اضافے کے مو¿خر اثرات اور تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی سے زائل ہو جائیں گے۔ اس کے مطابق مہنگائی کی پیش گوئی کی حد کسی تبدیلی کے بغیر 6.5 فیصد تا 7.5 فیصد تک رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مہنگائی میں اضافہ اور معاشی چیلنجوں کا تسلسل اقتصادی کارکردگی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ سال کی پہلی ششماہی میں حقیقی معاشی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معیشت میں وسیع روابط کے حامل بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) کے شعبے میں مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں کے دوران 0.9 فیصد کی خالص کمی ہوئی، جس کا اہم سبب ملکی طلب میں اعتدال اور بعض مخصوص شعبہ جاتی دشواریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ برس کی نسبت کمی آئی ہے۔ گندم کی فصل کا ابتدائی تخمینہ بھی حوصلہ افزا نہیں تاہم حالیہ بارشوں کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اجناس کے پیداواری شعبوں میں تبدیلیوں کے خدمات کے شعبے پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات کے باعث امکان ہے کہ مالی سال 19ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو کم ہو کر تقریباً 4.0 فیصد پر رہے گی، جو 6.2 فیصد کے سالانہ ہدف اور گذشتہ برس ہونے والی 5.8 فیصد نمو کے مقابلے میں کم ہے۔ طارق باجوہ نے کہا کہ جولائی تا دسمبر مالی سال 19ءمیں نجی شعبے کے قرضوں میں 570.4 ارب روپے کی خالص توسیع ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں ہونے والے اضافے سے تقریباً دگنی تھی۔ اس نمو کو بڑی حد تک خام مال (کپاس، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ) کی بلند لاگت ، بجلی اور تعمیرات سے منسلک صنعتوں (خصوصاً سیمنٹ اور فولاد) کی پیداواری گنجائش میں مسلسل اضافے اور حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی واپسی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطلق لحاظ سے اسٹیٹ بینک سے خالص میزانی مالکاری یکم جولائی تا 18 جنوری مالی سال 19ءکے دوران 3,770.5 ارب روپے تک جا پہنچی، جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں قرض لی گئی رقم کا 4.3 گنا بنتی ہے۔ اس قرضے کا نتیجہ مستقبل میں ممکنہ مہنگائی کی صورت میں نکلے گا۔ ان قرضوں کا بڑا حصہ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضے کی واپسی میں استعمال کیا گیا (خالص واپسی 3035.8 ارب روپے ہے)۔ انہوں نے کہا کہ مختصر مدت میں حکومتی قرض گیری کی اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کو اس بھاری منتقلی سے نجی شعبے کو قرض دینے (lending) کی ترغیب ملی ہے۔ بینک اپنی رقوم کو ری ڈپلائے کرنے کے لیے متفکر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ زری سختی کے موجودہ دورانیے اور معاشی سست روی کے حالات میں بینکوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے تفاوت میں بمشکل ہی کچھ اضافہ ہوا ہے۔ یکم جولائی تا 18 جنوری مالی سال 19ءکے دوران قرضے کے صحت مند استعمال اور بلند حکومتی قرض گیری دونوں نے زرِ وسیع (ایم ٹو) کی 2.2 فیصد تک بلند نمو میں بنیادی کردار ادا کیا جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں یہ 1.1 فیصد رہا تھا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مالی سال 19ءکی پہلی ششماہی میں امکان ہے کہ مالیاتی خسارہ گذشتہ برس کی اسی مدت سے زیادہ رہے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ڈی پی اخراجات کی رقوم میں کٹوتی اور ٹیرف اور ڈیوٹیوں کو حقیقت پسندانہ بنانے کے باوجود مالیاتی یکجائی بدستور ایک چیلنج ہے۔ ایم پی سی نے اپنے پہلے مو¿قف کا اعادہ کیا کہ مالیاتی پالیسی کو فعال ہونا چاہیے اور معاشی استحکام اور پائیدار نمو کے لیے سازگار حالات کی تخلیق میں معاون کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی محاذ پر سال کی پہلی ششماہی کے دوران جاری حسابات کاخسارہ 4.4 فیصد سال بسال کمی کے بعد 8.0 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس بہتری کا بڑا سبب اشیا اور خدمات کی درآمد میں ہونے والی تیز رفتار کمی ہے۔ معاشی استحکام کے اقدامات کے اثرات نان آئل درآمدات پر خاصے نمایاں ہیں جن میں مالی سال 19ءکی پہلی ششماہی کے دوران 4.4 فیصد کمی آئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں اس کی درآمدات 19.1 فیصد بڑھی تھیں۔ جاری حسابات کے خسارے کو محدود رکھنے میں برآمدات میں معمولی اضافے اور ترسیلاتِ زر میں معقول نمو سے بھی مدد ملی۔ تاہم جاری حسابات کے خسارے کی فنانسنگ دشوار رہی کیونکہ نجی (بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور نجی قرضے) اور سرکاری رقوم کی آمد خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ جاری حسابات کے بیشتر خسارے کو ملک کے اپنے وسائل سے پورا کیا گیا، جس سے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ کے ذخائر آخر دسمبر 2018ء تک کم ہو کر 7.2 ارب ڈالر رہ گئے۔ تاہم گذشتہ چند دنوں کے دوران دو طرفہ سرکاری رقوم کے حصول نے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ ذخائر کو بڑھا کر 8.2 ارب ڈالر کرنے میں مدد دی ہے ، جس سے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 جنوری 2019ء کو 14.8 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ طارق باجوہ نے کہا کہ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اب تک کیے جانے والے استحکام کے اقدامات کے اثرات بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں اور معاشی بے یقینی کمی کے باعث اعتماد بڑھ رہا لیکن پی ایس ڈی پی اخراجات میں کمی کے باوجود مالیاتی خسارے نے ابھی تک مجموعی یکجائی کی علامات ظاہر کرنی ہیں، اگرچہ جاری حسابات کے خسارے میں بتدریج نمایاں بہتری آئی ہے تاہم خسارے کی سطح بلند ہے۔ حکومتی قرضوں کی جدولی بینکوں سے اسٹیٹ بینک کو منتقلی کے نمایاں رجحان کے باعث وسط مدت میں مہنگائی کا دباو پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح یکجائی کے اقدامات کے معیشت پر بتدریج اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم مہنگائی کا مخفی دباو برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ صورت حال اور تفصیلی غور و خوض کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ میں 25 بی پی ایس اضافہ کرکے اسے 10.25 فیصد کر دیا ہے جو یکم فروری 2019ء سے نافذالعمل ہو گا۔