گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں کو بااختیار بنانا وقت کی ضرورت ہے، رابعہ جویری آغا

64
National Commission on Human Rights
National Commission on Human Rights

اسلام آباد۔9مارچ (اے پی پی):قومی کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کی چیئر پرسن رابعہ جویری آغا نے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ این سی ایچ آر خواتین کو بااختیار بنانے پر کام کر رہا ہے اور یہ تقریب ہنر مند آگاہی کے فروغ کی تعلیم کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے اور یہ این سی ایچ آر کے کاروبار اور انسانی حقوق کے اقدام کا بھی حصہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ مکالمے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا جسمیں گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لئے ضروری مشترکہ کوششوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس مکالمے کا اہتمام اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے قومی کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کے اشتراک سے ہوم نیٹ پاکستان، آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن ملتان اور ملتان ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اشتراک سے کیا گیا۔

آئی ڈبلیو ڈی کے اس سال کے موضوع ”خواتین میں سرمایہ کاری: ترقی کو تیز کرتا ہے”کے ساتھ ہم آہنگ صنفی مساوات کی طرف تیز تر پیش رفت کے لئے پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز میں سرمایہ کاری کے بارے میں ملٹی اسٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ مکالمے کے مقررین نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کے قوانین موجود ہونے کے باوجود گھر میں مقیم مزدوروں کو غیر رسمی معیشت سمیت بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ جبری مشقت، چائلڈ لیبر، صنفی امتیازی سلوک اور لیبر کے معیارات پر عمل نہ کرنے جیسے مسائل کا شکارہے، جس کی وجہ اس شعبہ کی خواتین کی معیشت میں مساوی شرکت مناسب طور پر میسر نہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کپاس چننے سے لے کر مینوفیکچرنگ تک ٹیکسٹائل سیکٹر سمیت پاکستان میں روزگار کی غیر رسمی نوعیت کی وجہ سے غیر رسمی خواتین مزدوروں کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس قانونی تحفظ کا فقدان ہے اور انہیں اکثر بغیر کسی سہارے کے من مانے طریقے سے برطرف کردیا جاتا ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ اپنے حقوق کا دعوی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ان کا ازالہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ این سی ایچ آر خواتین کو بااختیار بنانے پر کام کر رہا ہے اور یہ تقریب ہنر مند آگاہی بڑھانے والی تعلیم کے سلسلے کا پہلا حصہ ہے اور یہ این سی ایچ آر کے کاروبار اور انسانی حقوق کے اقدام کا بھی حصہ ہے۔

انہوں نے گھر پر مقیم خواتین کارکنوں کے تحفظ کے لئے کمیشن کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ مقررین نے کہا کہ گھر میں کام کرنے والے مزدور، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں، کام کے زیادہ اوقات، خطرناک حالات اور انٹرمیڈیری کنٹریکٹرز کے ساتھ استحصالی تعلقات کا سامنا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی آمدنی کم از کم مقررہ اجرت سے بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیلنجز پاکستان کے کاروباری منظر نامے میں گھر پر مقیم کارکنوں کے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لئے جامع اصلاحات کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

ہوم نیٹ سائوتھ ایشیا کی جانب سے ہوم ورکرز ان گارمنٹ سپلائی چین کے عنوان سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج بھی تقریب میں شیئر کیے گئے۔ یہ مطالعہ سال 2022 میں کراچی میں 110 خواتین ہوم ورکرز کے ساتھ کیا گیا تھا۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 83 فیصد ایچ بی ڈبلیو نے آنکھوں میں تنائو یا سر درد کی شکایت کی جس کے بعد کمر درد اور گردن / کندھے میں درد ، سوئی سے کٹنے اور زخم ، کولہے / ٹانگ میں درد اور تھکاوٹ اور اداسی کا شکار ہیں۔ تقریبا ً76 فیصد نے کہا کہ انہوں نے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے۔ سندھ حکومت کے مطابق ان مزدوروں کی اوسط ماہانہ آمدنی 6545 روپے تھی جبکہ کم از کم ماہانہ اجرت 19000 روپے مقرر تھی۔