اسلام آباد۔26جون (اے پی پی):صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں پانی اور خوراک اہم ہیں ، ان پر توجہ کی ضرورت ہے، پاکستان جدید ٹیکنالوجی اور اچھی قیادت کے انتخاب سے دنیا میں خوراک کی فراہمی کا مرکز بن سکتا ہے، اگر قیادت کی سوچ اچھی ہو تو ملک کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا، سرکاری اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر ترقی ہونی چاہئے، ہمیں تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔
اتوار کو اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں صدرمملکت نے کہاکہ غیرسیاسی سوچ رکھنے والوں کیلئے یہ طے کرناآسان ہے کہ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر میثاق معیشت کرلیا جائے لیکن اس میں ذاتی مفادات، اختلاف رائے سمیت دیگر عنصر حائل ہوتے ہیں، آج سے کچھ دھائی قبل پاکستان میں نظریات کی جنگ تھی جو اچھی تھی، معیشت پر سب اتفاق کرتے ہیں لیکن اس کی سمت کا تعین حکومت کی پالیسیاں کرتی ہیں ، نمائندوں کا انتخاب ایشوز پر کرنے کیلئے وقت درکارہے ،
برادری، کلچر، زبان اور وڈیرہ شاہی کی بنیاد پر ایک بڑی تعداد ایوانوں میں آجاتی ہے، ایوانوں میں جانے کیلئے لوگوں سے میل جول کی بنیاد پر ووٹ پڑتے ہیں، ان ایوانوں میں قانون سازی ہوتی ہے، بدقسمتی سے اکثریت کے پاس یہ صلاحیت اور مہارت نہیں ہوتی، ان کی تربیت کیلئے کچھ ادارے کام کر رہے ہیں تاہم ارتقائی اعتبار سے ہمیں اپنے سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹیوں کا سسٹم موجود ہے جہاں مسائل اور قانون سازی پر غور ہوتا ہے۔ انہیں مزید مضبوط بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے پارلیمانی کیلنڈر کے دن پورے کرنے کیلئے اجلاس جمعہ کو طلب کیا جاتا ہے تاکہ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی کے باوجود اجلاس شمار ہو اور دن پورے ہوسکیں۔
ہمیں اس رویہ کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آئین کا میثاق موجود ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل ہونا چاہئے، دنیا میں پالیسیوں میں ماہانہ بنیادوں پر تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ دنیا میں علم اور معاشی اصلاحات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل اتنی تیزی سے اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔صدر نے کہا کہ پاکستان میں بہت ساری چیزوں کا تعلق سوچ سے ہے اگر قیادت کی سوچ اچھی ہو تو ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کیلئے اب ترقی کی ٹرین پرسوار ہونا ہی اصل کام ہے اس کیلئے دانشمندانہ قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلباء یونین کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا رجحان بڑھا، سٹوڈنٹس یونین بلاشبہ نئی قیادت متعارف کرانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ملک کی 14 سے 18 سال کی نسل پر پوری قوم کی توجہ ہونی چاہئے۔
ہمیں تعلیم پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس حوالہ سے آئندہ دس سال اہمیت کے حامل ہیں، جو آبادی ناخواندہ ہے انہیں ہنرمندی اورفنی مہارت سکھا کر سودمند شہری بنایا جاسکتا ہے، ہم نے اپنی خواتین کو محدود کردیا ہے حالانکہ اسلام میں خواتین تجارت کرتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ آئی ٹی گریجوایٹس کی تعداد 27ہزار جبکہ بھارت میں یہ تعداد 8 لاکھ ہے۔ صدرمملکت نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا جس کا قوم نے اچھا مقابلہ کیا، کووڈ کا قوم نے اچھا مقابلہ کیا اور اداروں نے اچھا کام کیا۔
ہم پالیسیوں میں بہتری لائیں گئے تو بہتری آئے گی۔ دنیا میں مہنگائی کے اثرات ہیں، توقع ہے کہ پاکستان اپنی کاوشوں سے اس بحران سے نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ہماری سوچ یہ تھی کہ کرپشن کو ہم فوری ختم کردیں گے تاہم حکومت میں آکر علم ہواکہ یہ اتنا آسان کام نہیں اس کیلئے پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔
دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ ہمارے لئے آسان نہیں۔ ہماری بیورو کریسی کو ورثہ میں ملازمت کے تحفظ کا خوف ملا ہے جبکہ نجی شعبہ میں یہ ڈر نہیں وہ جلدی چیزوں کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر ترقی پر کم توجہ دی گئی اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصلاحات میں سستی سے انہیں کوفت ہوتی ہے، ملک میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے حوالہ سے کئی دھائیوں سے کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی، پولیس، صحت،تعلیم، انصاف سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کیلئے اتنی رپورٹیں ہیں کہ ان کاغذات سے لائبریاں بھری پڑی ہیں۔
صدرمملکت نے کہا کہ انہوں نےوزارت خارجہ کو کہا کہ وہ یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کے بچوں کو ایسے موضوع کا انتخاب کرکے دیں جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہو ں اور ان کو سامنے رکھ کر ہم اصلاحات لاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ رائے عامہ بنانے والے وہی پرانی سوچ کے تحت اچھے لکھنے کے خمار میں مبتلا ہیں۔ ہماری قیادت اور سیاستدانوں کو اپنی توجہ بڑھانی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے پاپولیشن ٹاسک فورس کی سربراہی دی گئی تو معلوم ہواکہ ملک میں 90 لاکھ حمل میں سے نصف ایسے تھے جو نہ چاہتے ہوئے ٹھہرے ، اس کی بنیادی وجہ مانع حمل اقدامات نہ کرنے تھے، اس حوالہ سے کوئی شرم نہیں ہونا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کے دل پاکستان سے جڑے ہیں ، وہ تہذیب و تمدن اور پاکستانیت کاجذبہ رکھنے والے ایسے پاکستانی تھے جنہیں ہم نے تعلیم و تربیت دے کرباہر برآمد کردیا۔
وہ ہیرے تھے جنہیں تراش کر ہم نے دوسرے ملکوں کے حوالہ کیا ان سے ہم آن لائن تعلیم کے حوالہ سے خدمات لے سکتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ ہمیں آپ کا زرمبادلہ نہیں چاہئے بلکہ آپ اپنے رشتہ داروں کو تعلیم و صحت کی سہولیات میں معاونت کریں۔ اطلاعات کے بہائو میں اب اتنا وقت نہیں کہ آپ اپنے نوجوانوں کو تعلیم کیلئے بیرون ملک بھیجیں اور وہ تعلیم حاصل کرکے وطن واپس آکر تعلیم دیں۔
اب آن لائن ٹریننگ بڑھانی چاہئے ، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، دنیا میں اتنا ڈیٹا اکٹھا ہوچکا ہے جس کو ہینڈل کرنے کیلئے دماغ نہیں ہیں۔ اس کیلئے ہیومن انٹیلیکچوئل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کیلئے فعال قیادت کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں انسانی فیصلے نفرت، عصبیت، فوبیا کو مدنظر رکھ کرکئے جارہے ہیں، ملکوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں، اقوام متحدہ کے قیام کا بنیادی مقصد یورپ میں جنگ کی روک تھام تھا کیونکہ دو عالمی جنگوں میں یورپ میں 14 سے 16 کروڑ لوگ مرے، انسانی جانیں جہاں بھی ضائع ہوں اس پر افسوس ہوتاہے۔
مفادات پر مبنی عالمی آرڈر کا مقابلہ کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کیلئے ستون اور خودداری ضروری ہے، تہذیبوں کا تصادم شناحت کی وجہ سے ہے یہی شناخت قوموں کو بناتی اوربگاڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کووڈ کے دوران علما نے بڑا کردار ادا کیا ہم ان کو ساتھ لے کر چلے، بعد میں دنیا نے ہماری مساجد کھولے رکھنے اور سماجی فاصلہ سے عبادات جاری رکھنے کے اقدام کو اپنایا۔
ہمارے علما نے حکومت کو یہ پیشکش کی کہ فجر سے ظہر تک ہماری مساجد خالی ہوتی ہیں اس انفراسٹرکچر کو استعمال میں لاکر معاشرتی مسائل کے حوالہ سے لوگوں کوآگاہی دی جاسکتی ہے اس کیلئے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 15 سے 20 ہزار روپے مسجد کے آئمہ کرام کو دے کر یہ کام لیا جا رہا ہے۔ صدرمملکت نے کہا کہ وزیراعظم ڈیجیٹل سکلز پروگرام سے 24 ہزار نوجوانوں نے استفادہ کیا۔ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے نوجوان امید کی کرن ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صرف ادارے بنانے سے نہیں بلکہ انہیں مضبوط بنانے سے ہم اپنی ضروریات اور مفاد حاصل کرسکتے ہیں۔ جن قوموں نے ادارے بنائے انہوں نے ترقی کی۔
صدرمملکت نے کہا کہ پاکستان کو جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے ان میں پانی اور خوراک شامل ہیں۔ ہالینڈ کارقبہ پاکستان سے کئی گنا کم ہے لیکن وہ دنیا میں فوڈ کی سپلائی کے حوالہ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پانی کو محفوظ بنا کر اور ورٹیکل فارمنگ سے ہم پاکستان کو بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں۔ اس کیلئے اچھی قیادت کا انتخاب بنیادی شرط ہے۔