ہم ماضی کی حکومتوں کے گناہوں کو بھگت رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو براڈ شیٹ کے معاملے کا تفصیلی طور جائزہ لے گی،مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر

40

اسلام آباد۔18جنوری (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ہم ماضی کی حکومتوں کے گناہوں کو بھگت رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو براڈ شیٹ کے معاملے کا تفصیلی طور جائزہ لے گی، رضاکارانہ طو رپر خود وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی سے الگ ہوا ہوں، ظفر علی نے براڈ شیٹ کو گمراہ کیا ہے، پاکستان نے کبھی بھی ظفر علی کو بطور اپنا نمائندہ پیش نہیں کیا، اثاثوں سے متعلق ابھی ہم اپیل میں ہیں، ریکوری نہیں ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 3 وفاقی وزراء پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے جو براڈ شیٹ کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے گی، کمیٹی براڈ شیٹ کے ساتھ 1.5 ملین ڈالر کی سیٹلمنٹ کو بھی دیکھے گی،آئی اے آر کے ساتھ بھی سیٹلمنٹ کا بھی بنائی گئی کمیٹی جائزہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قلت سے متعلق رپورٹ آچکی ہے، شاید کل پبلک کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میری ذات پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، ایسے الزامات کی وجہ سے کمیٹی میں میرا شرکت کرنا درست نہیں،براڈ شیٹ معاملے پر مجھ پر بھی الزامات لگائے جا رہے ہیں، شفافیت کے لئے کمیٹی میں شامل نہیں ہو رہا، رضاکارانہ طو رپر خود وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی سے الگ ہوا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ 2018ء یا 2019ء میں ظفر علی کیوسی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ براڈ شیٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں یا ان کے لئے کام کرتے ہیں، اسی طرح جب وہ براڈ شیٹ کو جا کر ملے تو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں تو یہ ان کی غلط بیانی تھی، پاکستان نے کبھی بھی ظفر علی کیوسی کی اس حوالے سے کوئی خدمات حاصل نہیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھی ظفر علی کو بطور اپنا نمائندہ پیش نہیں کیا، ظفر علی کو یہ کہا تھا کہ آپ اپنی تجاویز تحریری طو رپر لے کر آئیں، ظفر علی نے اپنی ذاتی اسناد علاوہ کچھ فراہم نہیں کیا لیکن وہ جو تجاویز لے کر آئے تھے وہ پاکستان کے لئے اس لئے بہتر نہیں تھی کیونکہ ان میں شرائط بہت زیادہ تھیں اور ان سے ہم ایک ایسے معاہدے بندھ جاتے جس سے پاکستان کو مستقبل میں نقصان کا اندیشہ تھا، جس کے بعد حکومت پاکستان نے ان کی تجاویز کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ سے معاہدے سے پہلے کمپنی کی تحقیقات نہیں کی گئی تھیں، 2008ء میں صدر آصف علی زرداری اور اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے، 2008ء میں پہلی مرتبہ نیب کو وزیراعظم آفس سے ہٹایا گیا تھا، نیب کو وزیراعظم آفس سے ہٹا کر وزارت قانون کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کے لئے وکیل وزارت قانون کی جانب سے رکھا گیا تھا، غالباً اس دور میں لطیف کھوسہ اٹارنی جنرل تھے، لطیف کھوسہ میرے خیال سے براڈ شیٹ کے وکیل بھی رہے ہیں، 2016ء کی سماعت میں مختلف پوائنٹس تھے جو اٹھائے جانے چاہئیں تھے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ اثاثوں سے متعلق تو ابھی ہم اپیل میں ہیں، ریکوری نہیں ہوئی، ریکوری نہیں ہوئی تو سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کیسے پیسے مانگ رہے ہیں، اپیل پروسیس میں ہمیں دیکھنا ہے کہ کون سے پوائنٹس منظور کئے گئے، تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کیا قانونی معاملات پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس پیسے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، 2016ء میں اپیل ہارنے کے بعد روزانہ 5 ہزار ڈالر جرمانہ لگ رہا تھا، ہمارا مطالبہ یہ ہی ہونا چاہیے تھا کہ ریکوری کے بعد پیسے ملیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر داخلہ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم براڈ شیٹ کے بینیفشل آنر کون ہیں، ماضی کی حکومتوں کے گناہوں کو بھگت رہے ہیں، ماضی میں دیئے گئے این آر اوز کو آج ہم بھگت رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے ہم نے گزشتہ 30 ماہ میں ایسا کوئی کنریکٹ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ کاوے موسوی سے دو مرتبہ ایک دوست کے ذریعے ملاقات ہوئی تھی، موسوی سے درخواست کی تھی کہ جو ایوارڈ ہو چکا ہے اس میں کمی لائیں، کاوے موسوی نہیں مانے تھے اس لئے ہماری بات چیت ختم ہو گئی تھی۔