اسلام آباد۔23فروری (اے پی پی):محکمہ صحت، ماحولیات اور ویٹنری ہیلتھ سے متعلق اداروں نے پہلی مرتبہ ملکی سطح پرصحت کے تحفظ ،جان لیوا بیماریوں اور وبائی امراض کی روک تھام کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔ ون ہیلتھ ورک فورس ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی جس کا مقصد صحت، حیوانات اور ماحولیاتی ماہرین پر مشتمل تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنا ہے تاکہ زونوٹک بیماریوں، اینٹی مائیکروبیل ریزسٹینس اور موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط کیا جا سکے۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی (ایچ ایس اے ) کے زیراہتمام ہیلتھ ورک فورس ڈویلمپنٹ پراجیکٹ کے حوالے سے ماہرین کا مشاورتی اجلاس گزشتہ روز یہاں منعقد ہوا ۔اجلاس میں اعلیٰ حکومتی عہدیداران، پالیسی ساز، بین الاقوامی صحت کی تنظیموں کے نمائندے اور ماہرین شریک ہوئے جنہوں نے انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی صحت سے جڑے چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔ ون ہیلتھ ورک فورس ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا مقصد زونوٹک (جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس اور موسمیاتی تبدیلی سے جڑے صحت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک تربیت یافتہ ورک فورس تیار کرنا ہے۔
وزیر اعظم کے کوآرڈنیٹر برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرت نے کہا کہ کووڈ-19 وبا نے یہ واضح کر دیا ہے کہ صحت عامہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کسی ایک شعبے کی کوششیں کافی نہیں۔ انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی صحت کے اداروں کے مابین ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔انہوں نے بیماریوں کی مؤثر نگرانی، تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ اور ترقیاتی شراکت داروں سے تکنیکی و مالی معاونت کے حصول کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد صرف بیماریوں کا علاج کرنا نہیں، بلکہ ایسا مضبوط نظام تشکیل دینا ہے جو وبائی امراض کے پھیلاؤ کو ابتدا میں ہی روک سکے۔افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ ون ہیلتھ اپروچ اب محض ایک آپشن نہیں بلکہ قومی صحت کے تحفظ کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم نے صحت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط ون ہیلتھ اپروچ کے لئے کثیر الجہتی ورک فورس کی تربیت کی ضرورت پر زور دیا ۔
چیف ہیلتھ ڈاکٹر محمد آصف نے حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے صحت عامہ کے نظام کو مزید مضبوط اور بیماریوں کی نگرانی کے نظام کو مؤثر بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔سپیشل سیکرٹری وزارت صحت مرزا ناصر الدین مشہود احمد نے ون ہیلتھ اپروچ کو قومی پالیسی میں شامل کرنے کے حکومتی فیصلے پر روشنی ڈالی، جبکہ پارلیمانی سیکرٹری وجیہہ قمر نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان ویژن 2025 اورایس ڈی جیز کے اہداف سے ہم آہنگ ہے ۔نیشنل کوآرڈنیٹر ڈاکٹر طارق محمود علی نے منصوبے کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مستقبل کی وباؤں سے نمٹنے کے لیے انسانی، ویٹرنری اور ماحولیاتی صحت کے شعبوں میں ایک مضبوط ورک فورس تیار کرنی ہوگی۔
عالمی ادارہ صحت ، اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او کے نمائندوں نے بھی اس اقدام کو سراہا ۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر محمد داؤد الطاف نے بیماریوں کی جلد تشخیص اور وبائی امراض کی تیاری پر زور دیا۔
پاکستان میں ایف اے او کے نمائندہ ڈاکٹر فلورنس رولے نے جانوروں کی صحت پر نظر رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اجلاس کے اختتام پر تمام ماہرین اور حکام نے صحت کے تحفظ کے لیےقومی صحت پالیسی میں ون ہیلتھ اصولوں کو شامل کرنے ،صحت، ویٹرنری اور ماحولیاتی ماہرین کی تربیت کے لیے نئے پروگرامز کے آغاز،بیماریوں کی نگرانی اور جلد خبردار کرنے والے نظام کو مضبوط بنانے،سائنسی تحقیق اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو فروغ دینےاوروبائی امراض کی روک تھام کے لیے تربیت یافتہ ورک فورس تیار کرنے پر اتفاق کیا۔
ون ہیلتھ ورک فورس ڈیولپمنٹ پروجیکٹ، حکومت، تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے پاکستان کے صحت کے شعبے میں ایک انقلابی کردار ادا کرے گا۔ اجلاس کا اختتام شکریہ کے کلمات اور مسلسل تعاون کے عزم کے ساتھ ہوا، اور پاکستان کو صحت کے تحفظ کے حوالے سے علاقائی سطح پر قائدانہ مقام حاصل کرنے کے لیے تیار قرار دیا گیا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=565122